پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل: قانون میں موجود سقم قاتلوں کو کیسے بچاتے ہیں؟
گزشتہ اکتوبر، بلال نے کراچی کے لیاری تھانے میں بیٹھ کر بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کی چار خواتین کو کیوں قتل کیا۔
جو کچھ اس نے تفتیش کاروں کو بتایا، اس کے مطابق یہ غیرت کا معاملہ نہیں تھا۔ اس کی گرل فرینڈ گھر کے کاغذات پر اپنا نام چاہتی تھی جس سے اس کی ماں نے انکار کر دیا تھا۔ اس کی بہنوں نے ٹک ٹاک پر اس کا مذاق اڑایا۔ چنانچہ اس نے ان سب کو قتل کر دیا، مقتولین میں اس کی ماں شمشاد، بہنیں مدیحہ اور عائشہ اور اس کی 9 سالہ بھانجی شامل ہیں۔ قتل کے بعد بلال نے خنجر کو سمندر میں پھینک دیا۔
اس کیس کے تفتیش کار کراچی کے ضلع جنوبی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عارف عزیز کا کہنا ہے کہ ’بلال نے اسے غیرت کا معاملہ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ قتل جائیداد اور کنٹرول کے لیے کیا گیا تھا‘۔
وہ ڈان کو بتاتے ہیں کہ ’بلال کا خاندان روشن خیال اور طاقتور تھا جو مردانہ تسلط کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا‘۔
بلال پر الزامات کی چارج شیٹ کے مطابق، اس نے قتل کے ثبوت چھوڑنے سے بچنے کے لیے بھارتی کرائم سیریز کرائم پیٹرول دیکھی تھی۔ یہ مقدمہ ابھی عدالت میں ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بلال کا معاملہ ایک پریشان کُن ارتقا کو ظاہر کرتا ہے جہاں غیرت اب جائیداد کے تنازعات، مردانہ عدم تحفظ اور پدرشاہی نظام کو اہمیت نہ ملنے کے باعث غصے میں کیے جانے والے قتل کے لیے ایک قانونی ڈھال بن چکی ہے۔ اب کچھ دعویٰ کریں گے کہ ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔
غیرت، قتل کے لیے ڈھال
بلال کے معاملے سے دو سال قبل، پاکستان کے شمال مغرب میں قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جوڑا اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کے بعد کراچی فرار ہوگیا تھا۔ یوں وہ ایک جرگے سے بچ گئے تھے جس نے ان کی موت کا حکم دیا تھا۔ جوڑے نے شہر بدلے۔ پہلے وہ لاہور، پھر کراچی گئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ دور جانے سے ان کی جان بچ جائے گی۔
2 اکتوبر 2024ء کو مسلح افراد نے انہیں لیاری کے ایک بھرے بازار میں دیکھ لیا اور گولی مار کر وہیں قتل کر دیا۔ کسی نے مداخلت نہیں کی۔ کسی نے گواہی نہیں دی۔
’باجوڑ تک قاتلوں کا پیچھا کون کرے گا؟‘ نیپئر پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے بیان دیا جس کی حدودِ تھانہ میں یہ قتل ہوا تھا۔
نیپئر تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) فدا مروت نے ڈان کو بتایا کہ مقتول کے رشتہ داروں نے لاشیں وصول کرنے سے انکار کردیا۔ ساتھ ہی ایس ایچ نے بتایا کہ ’ورثا نے کہا کہ یہ اچھا ہی ہوا کہ وہ مارا گیا کیونکہ اس نے انہیں شرمندہ کیا تھا‘۔
8 ماہ قبل، کراچی میں گلشن اقبال کے قریب معزز معالج ڈاکٹر رفیق احمد شیخ نے اپنی 16 سالہ بیٹی اور اس کے 17 سالہ بوائے فرینڈ کو ان کا رشتہ معلوم ہونے پر قتل کر دیا۔ ڈاکٹر نے خود پولیس کو قتل کا اعتراف کرنے کے لیے بلایا۔
ملیر جیل میں مقدمے کی سماعت کا انتظار کرتے ڈاکٹر رفیق ڈان کو بتاتے ہیں، ’انہوں نے (لڑکے کے اہل خانہ) نے رشتہ کیوں نہیں بھیجا؟ میں ایک باپ ہوں جس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دی ہے‘۔
جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ذوالفقار پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رفیق اور قتل میں ساتھ دینے والے ان کے بیٹے، جیل میں آرام دہ وقت گزار رہے ہیں وہ کہتے ہیں، ’ان کے پاس پیسہ اور روابط ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بچ جائیں گے‘۔
اور شاید وہ بچ بھی جائیں۔
قانونی چارہ جوئی
پاکستان کا قانونی ضابطہ اب بھی غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتلوں کو ’اسلامی‘ انصاف کے لبادے میں فرار کا راستہ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 309 اور 310 کی سابقہ دفعات قصاص اور دیت کی دفعات کے تحت مقتول کا خاندان اکثر خون کے بدلے میں قاتل کو معاف کر سکتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل میں، اس نے ایک مضحکہ خیز تضاد پیدا کیا ہے کیونکہ زیادہ تر معاملات میں قاتل خاندان کے افراد ہی ہوتے ہیں۔ وہ تو خود کو معاف کر سکتے تھے۔ دفعہ 306 میں واضح طور پر ان والدین کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جنہوں نے اپنے بچوں کو قصاص یا انتقام میں قتل کیا۔ اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے باپ کو ’اسلامی‘ قانون کے تحت پھانسی نہیں دی جا سکتی، چاہے وہ مجرم ثابت ہی کیوں نہ ہوجائے۔
ایڈووکیٹ علی برکت بلوچ ڈان کو بتاتے ہیں، ’ان دفعات سے قاتلوں کو آزاد ہونے کا موقع ملا۔ قاتل، وارث اور معاف کرنے والے اکثر ایک ہی لوگ ہوتے ہیں’۔
2004ء اور 2005ء میں، پاکستان نے اپنے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے قوانین میں ترمیم کی تاکہ اس خامی کو ٹھیک کیا جاسکے۔ یہ اصلاحات ناکام ہوگئیں۔ لیکن 2016ء میں، سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کے قتل کے بعد، پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون (مجرمانہ ترمیمی ایکٹ) پاس کیا تاکہ اس فرق کو ختم کیا جا سکے اور عمر قید کی سزا کا حکم دیا جا سکے پھر چاہے قاتل کو اہل خانہ معاف ہی کیوں نہ کر دیں۔
ایڈووکیٹ صباحت رضوی ڈان کو بتاتی ہیں کہ اس کا مثبت اثر ہوا ہے، ’اس نے استغاثہ کے مقدمات کو تقویت بخشی اور سزا کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ اب، یہ ایک ریاستی جرم ہے، یہاں تک کہ جب فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ طے پا گیا ہو تب بھی یہ قابلِ سزا جرم ہے‘۔
اس کے باوجود انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق، اب بھی سالانہ سیکڑوں خواتین کو ’غیرت‘ کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں کم از کم 894 واقعات رونما ہوئے جن میں سندھ اور پنجاب میں 80 فیصد اموات ہوئیں۔ 2025ء میں پاکستان بھر میں اب تک ایسے 690 قتل دستاویز ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں سے نصف کے قریب قتل سندھ میں ہوئے ہیں جن میں 27 قتل کراچی میں ہوئے ہیں۔
اسلام آباد کے ہیڈکوارٹر سسٹینیبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی رپورٹ، میپنگ جینڈر بیسڈ وائلنس (جی بی وی) 2024ء کے مطابق سزا کا معیار بھی ناقص ہے جس میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے معاملات میں سزا کی شرح 0.5 فیصد پائی گئی۔
’شہری علاقوں میں پنجے گاڑھ رہا ہے‘
سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کا استدلال ہے کہ کراچی میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ ایک سنگین بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔ پدرشاہی نظام شہر کاری کے بوجھ تلے منہدم ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر کریم کہتے ہیں، ’دیہی سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا سے نقل مکانی کی وجہ سے کراچی میں جاگیردارانہ ذہنیت پروان چڑھی ہے۔ لیکن شہر خواتین کو تعلیم، نوکریاں، نقل و حرکت فراہم کرتے ہیں جوکہ ایسی چیزیں ہیں جو اسے مردوں کے کنٹرول کے لیے خطرہ بناتی ہیں’۔
ڈاکٹر کریم احمد خواجہ موجودہ بحران کو 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کی ’اسلامائزیشن‘ پالیسیز سے جوڑتے ہیں جس نے خواتین کی شائستگی اور خودمختاری کو سماجی نظام کے لیے خطرات کے طور پر دوبارہ بیان کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’خواتین اجتماعی نفسیات میں کم انسان تصور کی جانے لگیں۔ معاشرے نے آزاد خواتین کو بے حیائی، سزا کی مستحق کے طور پر دیکھنا شروع کردیا‘۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا علاج کرنے کے لیے قاتلوں کو پناہ دینے والے خاندانوں کے لیے اجتماعی سزا کی تجویز پیش کی۔
مطالعہ سماجیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کا کہنا ہے کہ ریاست کو سزا سے آگے بڑھ کر روک تھام میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ ڈان کو بتاتے ہیں، ’ان جوڑوں کے لیے پناہ گاہیں اور امدادی گھر بنائے جائیں جو اپنی پسند سے شادی کرتے ہیں۔ خاندانوں کے ساتھ مشاورت، ہنر کی تربیت اور ثالثی فراہم کی جائے اور انہیں اپنے گھر واپسی کا راستہ دیں‘۔
ڈاکٹر ریاض نے زور دیا کہ صرف تعلیم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ’کراچی یونیورسٹی ڈریس کوڈ پر بحث کرتی ہے جبکہ پڑھے لکھے ڈاکٹرز اپنی بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں۔ یہ خواندگی کے بارے میں نہیں ہے، یہ مسلسل سماجی مداخلت کے ذریعے بننے والی ذہنی سوچ میں اصلاح کے بارے میں ہے‘۔
کراچی میں پناہ شیلٹر ہوم چلانے والی عظمیٰ نورانی کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم روزانہ اوسطاً 5 سے 8 خواتین کو پناہ دیتی ہے جو ’غیرت کے نام پر قتل‘ سمیت کسی نہ کسی طرح کے تشدد سے فرار کی راہ تلاش کررہی ہوتی ہیں۔
وہ ڈان کو بتاتی ہیں، ’ہم انہیں تحفظ، ایک محفوظ پناہ، قانونی امداد فراہم کرتے ہیں اور زندگی کی تعمیر نو میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ نجی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ہم مدد کے خواہاں فرد کو آسانی سے یہاں پناہ دے سکتے ہیں۔ سرکاری پناہ گاہوں میں یہ عدالتی حکم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا‘۔
عظمیٰ نورانی کہتی ہیں کہ ’لیکن ایک بار جب لڑکیاں پناہ گاہ سے باہر زندگی کی خواہش میں یہاں سے چلی جاتی ہیں تو وہ دوبارہ معاشرے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں ان کی خیریت پر نظر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اب کیا کیا جاسکتا ہے؟
اگرچہ بلال کا مقدمہ کراچی کی عدالتوں میں چل رہا ہے، اس کے والد جو بلال کے دعوے کے مطابق اسے ’بچانا‘ چاہتے ہیں، نے عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر رفیق ملیر جیل میں اپنے سیل میں آرام سے اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باجوڑ جوڑے کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں جہاں وہ قبائلی جغرافیہ اور سرکاری بے حسی کی وجہ سے محفوظ ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کا قانونی ضابطہ اور سماجی روایات زندگیوں پر سمجھوتے کو آسان بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وکلا کا کہنا ہے کہ حقیقی تبدیلی کے لیے سیکشن 306 میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ ورثا کی جانب سے اپنے قاتل بچوں یا والدین کو قتل سے استثنیٰ دیے جانے کو ختم کیا جا سکے۔ 2016ء کے قانون کو سختی سے نافذ کیا جائے اور خطرے میں پڑنے والی خواتین اور جوڑوں کے لیے ریاستی فنڈز سے چلنے والی پناہ گاہوں کا ایک قومی نیٹ ورک تشکیل دیا جائے۔
ان میں سے کوئی بھی اصلاحات مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں غیرت ہتھیار اور ڈھال دونوں بنی ہوئی ہے۔ یہ طاقت کا دعویٰ کرنے کے لیے ہتھیار ہے جبکہ قانون اور ثقافت کے ذریعے ڈھال کا کام کرتی ہے۔ جب تک تبدیلی نہیں آتی تب تک خواتین اور مرد اپنی جانوں کے ساتھ اس جرم کی ادائیگی کرتے رہیں گے۔ جبکہ ان کے قاتل یونہی آزاد گھومتے رہیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
