نقطہ نظر

چارلی کرک کے قتل نے زہران ممدانی کی جیت میں کیا کردار ادا کیا؟

چارلی کرک سانحے کی اہمیت دنیا ٹھیک سے نہیں سمجھ پائی ہے جس نے امریکی دائیں بازو میں شدید ہلچل مچا دی اور صہیونیت و امریکا کے تعلقات کو بھی بری طرح متاثر کیا۔

کیا زہران ممدانی واقعی کمیونسٹ ہیں جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں؟ یا پھر زہران ممدانی ویٹنگ فار گوڈو ڈرامے کے اس پُراسرار گوڈو کردار کی طرح ہیں جس کا انتظار ولادیمیر اور ایسٹراگون کرتے ہیں لیکن وہ نہیں آتا اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی کچھ جانتا تھا؟

زہران ممدانی خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ بتاتے ہیں جوکہ یورپ میں ماضی کے سدھرے ہوئے اور الجھن کا شکار سوشل ڈیموکریٹس سے بالکل الگ ہیں۔ ان کے حامی شاید خوش ہوتے اگر وہ صرف زہرانی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ ہوں، کسی حد تک ان چینی شہریوں کی طرح جو ڈونلڈ ٹرمپ کو چینی خصوصیات والے سوشلزم نامی اختراع کو کسی حد تک قبول کرنے کے قابل بنا رہے ہیں۔

ہمیں وقت میں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ زہران ممدانی کے لیے کون سا وصف زیادہ موزوں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ وہ بھوت نہیں ہیں جس سے کارل مارکس نے 1848ء میں یورپ کے نوآبادیاتی سرمایہ داروں کو خوفزدہ کیا تھا۔ مساوات کے اس انقلابی خیال نے اس وقت یورپ کو خوفزدہ کر دیا تھا لیکن چیزیں اس طرح نہیں ہوئیں جیسا کہ مارکس نے سوچی تھیں۔

محنت کشوں کے انقلاب کے بجائے امیر اور طاقتور (بورژوازی) نے زبردست مقابلہ کیا اور ان کا ردعمل آج ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ شائع ہونے کی تقریباً دو صدیوں بعد بھی دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ونسٹن چرچل، ایڈولف ہٹلر، بینیتو موسولینی، فرانسسکو فرانکو، اسٹیپن بنڈیرا، ایم ایس گولوالکر، جوزف میک کارتھی، ایوب خان، اوگسٹو پنوشے، رونلڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر اور ضیاالحق جیسے رہنماؤں وہ مثال ہیں جو مختلف طریقوں سے کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیے گئے جسے اکثر مبالغہ آمیز یا خیالی ’کمیونسٹ خطرے‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

بورژوازی (سرمایہ دار طبقے) نے مساوات پر مبنی اتحاد کے اس کمیونسٹ ’بھوت‘ کو روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے کے لیے مذہبی و ثقافتی ڈھانچے قائم کیے اور عام لوگوں میں اتحاد کو توڑنے کے لیے موجودہ ڈھانچوں کی سرپرستی کی جیسے نازی ازم، فاشزم، کو کلوکس کلان اور نسل پرستی جیسے نظام اسی مقصد کے لیے ابھرے۔

جنوبی ایشیا میں انہوں نے لوگوں کے مضبوط مذہبی لگاؤ سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے کمیونسٹ عقائد کو ایسے بیان کیا جیسے کہ ان کا خدا یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم انہیں یوں جزوی کامیابی حاصل ہوپائی۔

کمیونسٹ تحریک مغربی یورپ میں اس طرح زور نہیں پکڑی جیسی کہ مارکس نے پیش گوئی کی تھی لیکن یہ غیرمتوقع مقامات پر ابھری جیسے روس، چین، ویتنام، کیوبا اور چند دیگر ممالک میں بھی اُبھری لیکن وہ پائیدار نہیں تھی۔ زہران ممدانی کی سیاست کے تناظر میں 1957ء کا کیرالہ تجربہ اہم ہے جہاں بورژوا ریاست میں کمیونسٹ حکومت منتخب ہوئی تھی۔

کبھی کبھار بورژوا جذبہ جو کمیونزم کے لیے رکاوٹیں کھڑے کرنے کے لیے ہوتا ہے، غلط سمت میں گامزن ہوجاتا ہے۔ میری شیلی کے ناول میں وکٹر فرینکنسٹائن کی طرح جس نے غلطی سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک حیوان پیدا کردیا تھا، اسی طرح بورژوازی بھی بعض اوقات اپنے لیے مسائل پیدا کرلیتا ہے جن کی مثال نریندر مودی یا ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کو اقتدار میں لانا ہے۔

اگر زہران ممدانی میئر بننے کے لیے حائل بڑے چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہوپائے ہیں تو ان کی کامیابی کے ایک حصے کا سہرا دائیں بازو کے سیاستدانوں کے درمیان افراتفری کو دیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر نیتن یاہو مخالف جذبات کی اٹھتی لہر نے زہران ممدانی کے صیہونی مخالفین کے اثر و رسوخ کو کمزور کر دیا جس سے ان کے لیے کامیابی حاصل کرنا آسان ہوگیا۔

چارلی کرک سانحے کی اہمیت دنیا ٹھیک سے نہیں سمجھ پائی ہے جس نے امریکی دائیں بازو میں شدید ہلچل مچا دی اور صہیونیت اور امریکا کے تعلقات کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ یہ دونوں گروہ زہران ممدانی کے سیاسی مخالف تھے۔

چارلی کرک کے قتل نے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جس نے غزہ میں تشدد کو روکا اور میک امریکا گریٹ اگین (MAGA) حلقوں سے بھی یہ ردعمل کا باعث بنا۔ یہی ردعمل نہ صرف زہران ممدانی کی انتخابی مہم میں مددگار ثابت ہوا بلکہ مختلف ریاستوں میں بیک وقت مختلف عہدوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی ڈیموکریٹک امیدواروں کی جیت کے امکانات کو بھی مستحکم کیا۔

وہ اسنائپر شاٹ جس میں چارلی کرک کو نشانہ بنایا گیا، اس نے صہیونی حلقے یعنی امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC) کو بھی شدید نقصان پہنچایا جس کے سامنے بہت سے امریکی صدور نے قدرے جھکاؤ کا مظاہرہ کیا ہے۔

یہ یہودی مگر صہیونی مخالف صحافی میکس بلومن تھل کی تحقیقات ہی تھیں جنہوں نے ظاہر کیا کہ چارلی کرک کے قتل سے بنیامن نیتن یاہو کو کس قدر دہشت محسوس ہوئی۔ ہم نے اس سے پہلے کتنی ہی بار دیکھا کہ کسی واقعے کے بعد نیتن یاہو فوری طور پر ٹی وی پر نمودار ہوئے ہوں لیکن چارلی کرک میں معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

چارلی کرک جو اسرائیل کے سرپرست تھے لیکن تیزی سے ناقد بن رہے تھے، فوری پریس کانفرنس کرکے نیتن یاہو نے چارلی کرک کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔ جس اداسی کے ساتھ وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے، اسے یہ سمجھا گیا کہ جیسے وہ کہنا چاہتے تھے کہ چارلی کرک کی موت میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی افواہیں جھوٹی ہیں۔

فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادتوں نے MAGA تحریک میں لوگوں کو اپنا جائزہ لینے پر مجبور کیا کہ وہ کس مقصد کی حمایت کررہے ہیں جبکہ چارلی کرک اس حوالے سے ایک مضبوط آواز بن کر اُبھر رہے تھے۔ چارلی کرک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی 2024ء انتخابات کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے نیتن یاہو کی اسرائیل کو لامحدود حمایت دینے سے روکنے کے لیے امریکا پر دباؤ بڑھانے کے لیے اثر و رسوخ بھی حاصل کرلیا تھا۔

ان کی 32ویں سالگرہ سے چند دن قبل ہونے والی ان کی موت لازم و ملزوم طور پر اینڈریو کوومو کی سیاست کو متاثر کر گئی اور اس نے نیویارک کے رہائشی یہودیوں کو صہیونی و غیرصہیونی گروہوں میں فرق کرنے میں مدد دی۔ اس عمل سے ایک نیا درمیانی راستہ پیدا ہوا جس نے زہران ممدانی کے حق میں حمایت بڑھانے میں کردار ادا کیا۔

بعض اوقات بائیں اور دائیں بازو نے تاریخ میں ایک ساتھ کام کیا ہے پھر چاہے وہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہ کیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر وہ شاہ ایران کا تختہ الٹنے اور بعد میں 1977ء میں اندرا گاندھی کو ہٹانے کے لیے اکٹھے ہوچکے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بائیں بازو کے پاس وہ خصوصی اپیل نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ایک وقت تھا جب نکیتا خروشیف، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے ساتھ دوستی کا تصور کر سکتے تھے، خاص طور پر جب ان دونوں نے کیوبا کے میزائل بحران سے دنیا کو بچایا اور پھر ہوشیاری اور حوصلے کے ساتھ دنیا کو ایٹمی تباہی کے کنارے سے واپس لائے۔ جان کینیڈی کمیونزم سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہوئے، امریکی سیاست میں اسرائیلی اثر و رسوخ کے بھی سخت نقاد تھے اور آخرکار انہیں قتل کر دیا گیا۔

زہران ممدانی اکتوبر 1991ء میں پیدا ہوئے جوکہ وہی سال تھا کہ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا۔ ان کے والد انہیں بتاتے ہوں گے کہ کیسے سوویت یونین کے زوال اور اس کے نتیجے میں ختم ہونے والی سرد جنگ کے فوراً بعد جمہوریت کو بیان کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح سامنے آئی جسے ‘فری مارکیٹ ڈیموکریسی’ کہا جاتا تھا۔

اس وقت کے آس پاس اسپین (SPAN) میگزین جو دہلی میں امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا تھا، چھوٹا ہوتا گیا جس کے لیے باضابطہ طور پر کہا گیا کہ کاغذ کی بچت کی غرض سے ایسا کیا گیا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ واقعی اس میگزین کے ذریعے پروپیگنڈے پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ کام باخوبی ہو چکا تھا۔

پروپیگنڈا ایجنسیز نے اپنے وعدے کے مطابق بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ میرے بھائی اور میں نے جان ایف کینیڈی کے کلاسک افتتاحی خطاب کو حفظ کیا ہوا ہے جس کے پتلے ریکارڈز، امریکی لائبریری لکھنؤ کے ذریعے تقسیم کیا گیا تھا۔

سیموئل بیکٹ کے ڈرامے میں گوڈو کو جان بوجھ کر مبہم کردار رکھا گیا ہے جو امید، مقصد یا اعلیٰ طاقت کی علامت کے طور پر کام کرتا ہے جبکہ اس کی پہچان ناظرین پر چھوڑ دی گئی ہے۔ یہی ایک قابلِ قبول طریقہ ہوسکتا ہے جو اس مظہر کو بیان کرے جسے زہران کوامے ممدانی کہا جاتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔