تعلیم سے سیاست تک: اپنے گاؤں کی خواتین کی تقدیر بدلنے کے لیے پُرعزم نوشابہ رونجھو کی کہانی
سندھ کے قدامت پسند گاؤں سے تعلق رکھنے والی نوشابہ رونجھو سال 2007 میں اپنے گاؤں کی ایک عورت کے طور پر تقریباً ناقابلِ تصور قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ مرد سیاستدانوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
یہ ایک غیرمعمولی عزم ہے اُس 33 سالہ خاتون کے لیے جنہیں گھر سے باہر کام کرنے کے جرم میں کم و بیش ایک دہائی قبل اپنے ہی گھر سے بےدخل کردیا گیا تھا۔ لیکن نوشابہ کے لیے انتخاب لڑنا دراصل اُس سفر کی منطقی تکمیل ہے جو ایک بغاوت سے شروع ہوا تھا جہاں انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا جبکہ اُن کی برادری کی کسی لڑکی نے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔
‘میں عام خواتین کی طرح نہیں رہنا چاہتی تھی جو اپنے والدین یا شوہروں پر منحصر ہوتی ہیں،’ اپنے سادہ سے گھر میں جو سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے دھول مٹی سے بھرے گاؤں شیخ سومار میں واقع ہے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’میں نے ایک مختلف اور مشکل زندگی کا انتخاب کیا۔‘۔
روایات کو توڑتے ہوئے
شیخ سومار گاؤں جھِرّک قصبے سے 10 کلومیٹر دور واقع ہے اور مٹی کی اینٹوں سے بنے 150 گھروں پر مشتمل ہے جہاں زیادہ تر لڑکیاں تعلیم حاصل کریں بھی تو ان کی تعلیم پرائمری کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ نوشابہ نے بھی گاؤں کے اسکول میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنی قدامت پسند رونجھو برادری کی اکثر لڑکیوں کی طرح ان کی پڑھائی کا سلسلی بھی اچانک روک دیا گیا۔
لیکن جہاں دیگر لڑکیوں نے اس تقدیر کو قبول کر لیا وہیں نوشابہ نے گھر پر ہی اپنی تعلیم جاری رکھی۔ گھر کے کام نمٹانے کے بعد چراغ کی روشنی میں وہ پڑھا کرتی تھیں۔ 2010ء میں 18 سال کی عمر میں انہوں نے میٹرک کا امتحان بطور نجی امیدوار دیا جس میں وہ پاس بھی ہوگئیں۔ یوں وہ اپنی برادری کی پہلی لڑکی بن گئیں جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔
اسی سال ان کی شادی ان کے کزن محمد عُریس سے کر دی گئی جو دیہاڑی دار مزدور تھے اور گاؤں کے بیشتر مردوں کے برعکس ان کے تعلیمی عزائم کی حمایت کرتا تھے۔ 44 سالہ عُریس کہتے ہیں، ‘مجھے اس میں کچھ مختلف نظر آیا۔ وہ اس زندگی پر مطمئن نہیں تھی جسے زیادہ تر عورتیں قبول کر لیتی ہیں۔ میں نے سوچا، میں اسے آگے بڑھنے سے کیوں روکوں؟’
اگلے 7 برسوں تک نوشابہ نے وہی زندگی گزاری جس کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔ تین بچوں کی پرورش کی، گھر کے کام کاج سنبھالے اور اپنے شوہر کی قلیل آمدنی میں خاندان کا گزارا کرتی تھیں۔ لیکن وہ سب پرکھ رہی تھیں۔ انہوں نے عورتوں کو زچگی کے دوران قابلِ علاج پیچیدگیوں کی وجہ سے مرتے دیکھا۔ انہوں نے لڑکیوں کو بلوغت کے بعد اسکول چھوڑتے دیکھا۔ انہوں نے غربت اور روایت کو قابلیت کا گلا گھونٹتے دیکھا۔
جب 2017ء میں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) نے کمیونٹی ورکرز کے لیے اشتہارات دیے تو نوشابہ کو موقع نظر آیا۔ انہوں نے اپنی برادری کے بڑوں کو بتائے بغیر درخواست دے دی۔
سفر میں کامیابیاں اور رکاوٹیں
‘میری پہلی تنخواہ 6 ہزار روپے تھی’، وہ یاد کرتی ہیں۔ ایک ایسی عورت کے لیے جس نے کبھی پیسے پر کنٹرول نہیں رکھا تھا، یہ تجربہ زندگی بدل دینے والا تھا۔ ان کے کام میں گھر گھر جا کر صحت اور حفظانِ صحت سے متعلق آگاہی دینا شامل تھا ور جلد ہی دیگر کمیونٹی تنظیموں نے بھی اسی طرح کے پروجیکٹس کے لیے انہیں رکھنا شروع کر دیا۔
لیکن کامیابی کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ 44 سالہ عُریس کہتے ہیں، ‘جب نوشابہ نے بطور سماجی کارکن کام شروع کیا تو لوگ مجھے طعنے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی شریف آدمی کبھی اپنی بیوی کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ کہ وہ ہمارے خاندان کی عزت خراب کر دے گی۔ مگر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں ہر حال میں اس کا ساتھ دوں گا‘۔
دباؤ بڑھتا گیا۔ 2019ء میں نوشابہ کے خاندان نے دھمکی دے دی کہ کام چھوڑ دو یا پھر خاندانی گھر چھوڑ دو۔ وہی گھر جہاں نوشابہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔
نوشابہ بتاتی ہیں کہ ’وہ کہتے تھے کہ میں خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہی ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ میں دیگر لڑکیوں کے لیے بُری مثال قائم کر رہی ہوں کیونکہ میں ہماری روایات کو تباہ کر رہی ہوں‘۔
ان حالات میں نوشابہ نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی جمع پونجی اور عُریس کی آمدنی کو ملا کر انہوں نے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک کمرے کا گھر بنا لیا۔ وہ تنگ اور سادہ سا تھا لیکن وہ ان کا اپنا تھا۔
اس جدوجہد نے نوشابہ کو مالی خودمختاری کی اہمیت سکھائی۔ ایس آر ایس او کے ذریعے انہیں 3 لاکھ روپے کا قرض ملا جو انہوں نے مویشیوں میں سرمایہ کاری کر کے استعمال کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘میں نے مویشی خریدے اور ایک سال بعد فروخت کردیے۔ ہم نے یہ رقم اپنے کچے گھر کی مرمت اور آئندہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی‘۔
انہوں نے ویکسی نیشن مہمات، پانی اور صفائی کے منصوبوں اور صحت کے پروگرامز میں کئی گاؤں میں کام شروع کیا۔ لیکن ایک مشن ایسا تھا جو دوسروں سے بڑھ کر ان کے دل کے قریب تھا اور وہ تھا لڑکیوں کو اسکول بھیجنا۔
تعلیم کے لیے جدوجہد
شیخ سومار میں ایک سرکاری اسکول ہے جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہے۔ یہی حقیقت بہت سی لڑکیوں کو گھروں تک محدود رکھتی ہے کیونکہ والدین انہیں مخلوط ماحول میں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔
نوشابہ بتاتی ہیں، ‘ہمارے پاس لڑکیوں کے لیے الگ اسکول نہیں ہے جو والدین کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے’۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے وہ گھر گھر جا کر والدین کو اپنی بیٹیوں کا اندراج کروانے پر آمادہ کرتی رہیں۔
اسکول کے ایک استاد اکرم رونجھو، کہتے ہیں کہ نوشابہ کی کوششوں سے پچھلے چند برسوں میں 100 سے زائد لڑکیوں کا اسکول میں داخلہ ہوا ہے۔ نوشابہ کی اپنی بیٹیاں 13 سالہ نائلہ اور 11 سالہ نادیہ بھی ان ہی طالبات میں شامل ہیں، ساتھ ہی ان کا 8 سالہ بیٹا بھی اسکول جاتا ہے۔
اس کے باوجود اسکول میں اب بھی لڑکیوں کے لیے علیحدہ عمارت نہیں ہے جو قدامت پسند خاندانوں میں تعلیم کے حصول کی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ نوشابہ کئی بار مقامی یونین کونسل کے نمائندوں سے لڑکیوں کے لیے الگ اسکول کی درخواست کر چکی ہیں مگر ان کی بات سنی نہیں گئی اور یہی محرومی ان کے سیاسی عزائم کو مزید تقویت دیتی ہے۔
ماؤں اور بچوں کی صحت
ماں اور بچے کی اموات ایک اور مسئلہ ہے جو نوشابہ کو بے چین رکھتا ہے۔ وہ ڈان کو بتاتی ہیں، ‘گاؤں کی زیادہ تر عورتیں اپنی صحت کے مسائل پر توجہ نہیں دیتیں اور سومار شیخ گاؤں کی کئی عورتیں زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں‘۔
پاکستان میٹرنل موریٹالیٹی سروے 2019ء کے مطابق سندھ میں ہر ایک لاکھ پیدائش پر 224 عورتیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں جو قوم کی اوسط 186 تعداد سے کہیں زیادہ ہے اور دیہی علاقوں میں یہ المیے زیادہ عام ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق صوبے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح بھی زیادہ ہے جہاں ہر ایک ہزار پیدائش پر 77 اموات ہوتی ہیں جو قومی اعداد و شمار سے بلند ہے۔
نوشابہ نے اس مسئلے کا حل اس وقت تلاش کیا جب وہ فلاحی ادارے ’ہینڈز‘ کے ایک میڈیکل کیمپ میں شریک ہوئیں۔ مقامی کمیونٹی آرگنائزر قاسم دال کے ساتھ مل کر انہوں نے ادارے کو قائل کیا کہ وہ شیخ سومار میں باقاعدہ خدمات شروع کرے۔
اب ہر 15 دن بعد ایک سونولوجسٹ اور ایک ڈاکٹر گاؤں کا دورہ کرتے ہیں۔ تاہم ابتدا میں مقامی لوگ اپنی عورتوں کو ڈاکٹر کے پاس بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ پھر ایک بار نوشابہ نے مداخلت کی۔ مردوں کو خواتین کی صحت کے مسائل سمجھایا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو پیشہ ور ڈاکٹروں سے مشورہ اور علاج کروانے دیں۔ اس کے بعد سے نوشابہ نے اپنے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں دو دیگر عورتوں کو بھی اس طرح کے سیشن کروانے کی تربیت دی ہے۔
نوشابہ بتاتی ہیں، ‘ڈاکٹروں سے ماہرانہ مشورہ لینے کے بعد، عورتیں مانع حمل گولیاں استعمال کر رہی ہیں اور بچوں کو دوائی اور غذائیت پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر مل رہی ہے‘۔
سیاست میں قدم
2024ء تک نوشابہ اپنے علاقے کی سب سے مؤثر کمیونٹی کارکنان میں شمار ہونے لگی تھیں۔ مگر ایک موقع ایسا آیا جہاں وہ رک گئیں۔ وہ لوگوں کو منظم کر سکتی تھیں، آگاہی دے سکتی تھیں لیکن مقامی سرکاری عہدیداروں کو حل پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتی تھیں۔
اسی احساس نے انہیں 2027ء کے اوائل میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
وہ ڈان کو بتاتی ہیں، ‘میں نے اپنے گاؤں کے لیے بہت کوشش کی ہے لیکن یہ کوششیں اُس وقت تک کافی نہیں جب تک مجھے سیاست میں آنے کا موقع نہ ملے۔ ہم نے ہمیشہ ووٹ دیا لیکن کوئی اثر نہیں دیکھا۔ ہمارے مقامی سیاسی رہنما ہماری بنیادی ضروریات اور مسائل سے بے پروا دکھائی دیتے ہیں‘۔
یہ ایک جرأت مندانہ قدم ہے وہ بھی اُس عورت کے لیے جسے محض گھر سے باہر کام کرنے پر چند سال پہلے ہی سماجی طور پر تنہا کر دیا گیا تھا۔ اب وہ ایسے مضبوط اثر و رسوخ والے سیاستدانوں کے مقابلے میں کھڑی ہوں گی جن کے پاس وسائل بھی ہیں اور اثر و رسوخ استعمال کرنے کے طریقے بھی۔
ایس آر ایس او کے کارکن خادم شر کا ماننا ہے کہ نوشابہ جیسی خواتین معاشرتی تبدیلی کی اہم محرک ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ایسے معاشروں میں جہاں ثقافتی پابندیاں اور سخت روایات غالب ہوں، اس کی کہانی ایک طاقتور مثال کے طور پر سامنے آتی ہے‘۔
نوشابہ کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ ایک سادہ سی حقیقت سے پیدا ہوا جو یہ تھی کہ ادارہ جاتی طاقت کے بغیر جدوجہد بھی محدود ہوتی ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور مقامی رہنما مسلسل ان کی برادری کے مسائل کو نظر انداز کرتے آئے ہیں اور وہ سیاسی میدان میں ایک مضبوط آواز بننا چاہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ‘میرا گاؤں میری دنیا ہے اور میں یہاں رہنے والے ہر فرد کے لیے اسے بہتر بنانا چاہتی ہوں۔ ہماری خواتین مختلف مسائل میں مبتلا ہیں۔ یہ ان کی تقدیر نہیں بلکہ انتظامی خامیوں کی وجہ سے ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہم زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لا سکیں گے’۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
