پشاور کی سڑکوں پر روایت اور خوف کو چیلنج کرتی خواتین
جب سوشل میڈیا انفلوئنسر صبا نے پہلی بار پشاور کی سڑکوں پر اسکوٹر چلانا شروع کی تو یہ منظر دیکھتے ہی لوگوں کا ردعمل فوراً سامنے آ گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ شہر میں لوگ انہیں حیرت سے گھورتے رہے، جیسے کسی عورت کا اکیلے دو پہیوں والی سواری چلانا ایک غیر معمولی بات ہو۔ تاہم یہ توجہ ان کے حوصلے کو کم نہ کر سکی اور وہ نظریں سڑک پر جمائے آگے بڑھتی رہیں۔
صبا کے مطابق خاندان کی حمایت نے انہیں یہ اعتماد دیا کہ وہ لوگوں کے ردعمل کو نظرانداز کریں اور اپنے راستے پر توجہ رکھیں۔
پاکستان کی سڑکوں پر موٹرسائیکلیں گاڑیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ گیلپ پاکستان ڈیجیٹل اینالیٹکس پلیٹ فارم اور پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2007 سے مارچ 2025 تک 2 کروڑ 4 لاکھ سے زائد موٹرسائیکلیں فروخت ہوئیں جبکہ اسی عرصے میں صرف 26 لاکھ گاڑیاں فروخت ہو سکیں۔ پاکستان اس وقت دنیا کی نویں بڑی ٹو وہیلر مارکیٹ بن چکا ہے اور 2025 میں عالمی سطح پر تیز ترین ترقی کرنے والی مارکیٹس میں شامل رہا۔
اس کے باوجود خواتین کو اسکوٹر یا موٹرسائیکل چلاتے دیکھنا اب بھی نہایت کم ہے، خاص طور پر پشاور جیسے شہروں میں جنہیں قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے اسکوٹر پر سفر کے لیے غیر تحریری مگر سخت سماجی اصول موجود ہیں، جن کے تحت عورت خود ہینڈل نہیں پکڑ سکتی اور اگر وہ پیچھے بیٹھی ہو تو اسے ایک مخصوص انداز میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی طرزِ نشست بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔
منظر نامہ بدل رہا ہے
صبا جیسی خواتین جو ان روایات سے بے نیاز ہو کر سڑکوں پر نکل رہی ہیں، پشاور کے منظرنامے کو آہستہ آہستہ بدل رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شہر خواتین کے لیے اب پہلے سے زیادہ محفوظ اور قابلِ قبول ہوتا جا رہا ہے۔
ان کے بقول ان کے فیصلے نے دیگر خواتین کو بھی حوصلہ دیا ہے اور پشاور میں اسکوٹر چلانا بے حیائی نہیں بلکہ حدود میں رہتے ہوئے ایک محفوظ عمل ہے۔
سرکاری اعداد و شمار اس تبدیلی کی سست رفتاری کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق پشاور کی 47 لاکھ آبادی میں خواتین کی تعداد 23 لاکھ سے زائد ہے، مگر ٹریفک پولیس کے مطابق 2025 میں شہر میں صرف 1931 خواتین کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہیں۔
یوں پشاور کی سڑکوں پر اسکوٹر چلانے والی ہر خاتون محض ایک مسافر نہیں بلکہ ایک خاموش انقلاب کی علامت بن جاتی ہے۔
تحقیقی مطالعات کے مطابق خواتین کے لیے ذاتی سواری اختیار کرنا خودمختاری کی علامت ہے اور یہ صنفی حدود کو چیلنج کرتی ہے۔ شہری ٹرانسپورٹ پر ہراسانی اور عدم تحفظ خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرتا ہے، جس کے باعث ذاتی سواری ایک بہتر متبادل بن جاتی ہے۔
صبا کا کہنا تھا کہ لوگ اکثر پشاور کو ایک مخصوص طرز کا شہر قرار دیتے ہیں، مگر میرا مقصد یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ پشاور کی خواتین بھی دیگر شہروں کی خواتین کی طرح باصلاحیت ہیں۔ اسی لیے میں نے پہلا قدم اٹھایا اور اسکوٹی چلانا شروع کی۔ ان کے مطابق میرے پاس کار اور ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے، مگر اسکوٹی چلانا بہت آسان ہے۔ میں بغیر کسی مشکل کے میٹنگز میں جا سکتی ہوں اور روزمرہ کے کام نمٹا سکتی ہوں۔
خودمختاری
جامعہ پشاور کے شعبہ عمرانیات کے لیکچرار ڈاکٹر ظفر خان کے مطابق خواتین کو اسکوٹر یا موٹرسائیکل چلاتے دیکھنا نہ صرف سماجی تبدیلی بلکہ بااختیاری کی علامت بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب خواتین کا گاڑی چلانا بھی قابلِ قبول نہیں تھا، مگر اب تبدیلی آ رہی ہے۔ ذاتی سواری خواتین کو روزمرہ کے امور میں خودمختاری فراہم کرتی ہے اور مردوں پر انحصار کم کرتی ہے، خواہ وہ بچوں کو اسکول چھوڑنا ہو، یونیورسٹی جانا ہو یا دیگر ضروری کام۔
ان کے مطابق اس سے خواتین کے لیے معاشی مواقع بھی بہتر ہوتے ہیں اور محفوظ ماحول فراہم کر کے انہیں عوامی ٹرانسپورٹ پر ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر خان نے مزید کہا کہ نقل و حرکت کے معاشی اثرات بھی ہیں۔ اگر خواتین کام کر رہی ہوں تو ان کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں میں کئی خواتین کو موٹر سائیکل اور اسکوٹی چلاتے دیکھتا ہوں، اور جب میں نے پہلی بار ایک لڑکی کو موٹر سائیکل پر دیکھا تو میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ تبدیلی آ رہی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ معاشرے اور حکومت دونوں کی حمایت ضروری ہے۔ ان کے مطابق اگر معاشرہ اور حکومت ایسی سرگرمیوں میں خواتین کی حمایت کریں تو یہ دوسروں پر انحصار کم کر سکتا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسانی سے بچا سکتا ہے۔ محفوظ ماحول فراہم کرنے سے خواتین سماجی اور معاشی طور پر زیادہ بااختیار ہو سکتی ہیں۔
خاندانی حمایت کا کردار
پشاور کے شہریوں نے بھی خواتین سواروں کے لیے سہولت فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ طاہر نعیم جو پشاور کے رہائشی ہیں مگر اب اسلام آباد میں رہتے ہیں اور ہر ہفتے شہر آتے ہیں، کا کہنا تھا کہ خواتین کو محفوظ جگہیں ملنی چاہئیں۔ متبادل سفری ذرائع ایک اچھا موقع ہیں۔ یہ خودمختاری دیتے ہیں، دوسروں پر انحصار کم کرتے ہیں اور کم خرچ ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خاندانی حمایت ان تبدیلیوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کی مثال جامعہ پشاور کی طالبہ ہما کا تجربہ ہے۔ انہوں نے بچپن میں سائیکل چلانے سے 2020 میں موٹر سائیکل چلانے تک کا سفر طے کیا، جس میں ان کے والد نے حوصلہ افزائی کی۔ ان کے مطابق اگر خاندان آپ کے ساتھ ہو تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مشترکہ خاندان میں پرورش پانے والی ہما کے والد نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی ان کے فیصلے میں مداخلت نہ کرے۔ ان کی حمایت نے ہما کو خودمختاری کی راہ اپنانے کی آزادی دی۔ ان کے مطابق لوگ مجھے موٹر سائیکل چلانے پر سراہتے ہیں اور یہ میرے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے۔ میں رات کے وقت بھی خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ مجھے کبھی منفی ردِعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، البتہ پہلی بار دیکھنے پر لوگ چونک جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل چلانے سے میری زندگی بہت آسان ہو گئی ہے۔ میں خودمختار ہوں اور کسی پر انحصار کیے بغیر کہیں بھی جا سکتی ہوں۔ ہما نے دیگر نوجوان خواتین کے لیے پیغام بھی دیا کہ موٹر سائیکل چلانا میرے لیے گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔ یہ خودمختاری اور آزادی کے بارے میں ہے۔ بہت سی لڑکیاں صرف اس ڈر سے رک جاتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔
تبدیلی میں وقت لگے گا
پشاور میں مقیم صحافی جمائمہ آفریدی نے ڈان کو بتایا کہ وہ اس علاقے سے تعلق رکھنے اور یہاں کام کرنے کے باعث خواتین کو درپیش مشکلات کو سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق جب کوئی چیز معاشرے میں غیر مانوس ہو تو اس کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تب ہی معمول بنے گا جب ایسی خواتین آگے آئیں اور نقل و حرکت کے بنیادی حق پر عمل کریں۔ وقت کے ساتھ لوگ عادی ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک سائیکل ریلی کا اہتمام کیا تھا۔ اس پر کافی تنقید ہوئی، مگر اس سے لوگوں کو یہ احساس بھی ہوا کہ خواتین کو سائیکل چلانے کا حق ہونا چاہیے۔
جمائمہ آفریدی نے کہا کہ خواتین کے سائیکل یا موٹر سائیکل چلانے پر عوامی بحث شروع کرنا ان کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ ان کے مطابق ابتدائی طور پر یہ قدم اٹھانے والی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ گھورنا، تنقید، اور یہ دعوے کہ وہ ثقافت کو خراب کر رہی ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ بہتری آئے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس کو اپنائیں تاکہ ان کی موجودگی نظر آئے اور یہ معمول بن جائے۔
خاموش انقلاب
پشاور میں اسکوٹی چلانے والی خواتین کی تعداد شاید اب بھی کم ہو مگر ان کی موجودگی ایک بڑے پیغام کی عکاس ہے، ایک ایسی تبدیلی جس کے ذریعے خواتین ایک ایسے شہر میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں جو آہستہ آہستہ ان کے لیے جگہ پیدا کرنا سیکھ رہا ہے۔
صبا نے ایک گہری سانس کے ساتھ کہا کہ میرا پشاور بہت خوبصورت ہے، اور یہ لڑکیوں کے لیے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں پشاور سے محمد اشفاق نے تعاون کیا ہے۔
تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔