Dawn News Television

شائع 08 اکتوبر 2013 05:31pm

کراچی، آپریشن اور سمارٹ فونز

میرا بچپن جس قصبے میں گزرا تھا وہاں بارش اور بجلی کا وہی تعلق تھا جو آج کل حکومت اور عقل کا ہے۔ یعنی ایک آتی تھی تو دوسری چلی جاتی تھی اور تب تک غائب رہتی تھی جب تک پہلی واپس نہ چلی جائے۔

ان دنوں بجلی اور حکومتیں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے رہا کرتی تھیں اور جہاں تک عقل کا تعلق ہے تو اسے ہمارے بھیجے میں گھسانے کی ذمہ داری ٹی وی کے بجائے ہماری دادی کے پاس تھی۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ شام ڈھلے لائٹ جاتی تو ہماری دادی مرحومہ اپنے پون درجن پوتے پوتیوں کے بیچ بیٹھ جاتیں اور پرائم ٹائم شروع ہو جاتا۔

اس پرائم ٹائم میں انٹرٹینمنٹ بھی ہوتی تھی اور حالات حاضرہ بھی۔ ہم میں سے وہ جو ہم کزنز میں کچھ بڑے تھے دادی کو یہ بتایا کرتے تھے کہ آج اخبار میں کیا پڑھا تو چھوٹے دادی کا کہانیوں والا چینل لگانے کے چکر میں رہا کرتے تھے۔

دادی پہ ٹی وی کے ریموٹ کی طرح قبضے کی جنگ عام طور پر نیلام گھر پر ختم ہوتی تھی جس میں پہیلیوں اور سوالوں کا صحیح جواب دینے کے انعام میں چینی کی چٹکی سے برفی کے ٹکڑے تک سبھی کو کچھ نا کچھ مل جاتا تھا۔

اسی نیلام گھر کے سیشن میں ہماری دادی نے ہمیں 'مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو ... کہ ناحق خوں پروانے کا ہوگا' والا بدنام زمانہ شعر سنا کر یہ پوچھا تھا کہ بھلا بتاؤ تو سہی شہد کی مکھی کے باغ میں جانے کا پروانے کے خون ہونے سے کیا تعلق ہے؟

اس زمانے کی دادیاں آجکل کی حکومتوں کی طرح اپنی پٹاری میں ایک آدھ ایسی پہیلی رکھا کرتی تھیں جس کی مدد سے وہ برفی کا ٹکڑا دینے سی پہلے بچوں کا صبر آزما سکیں۔

چند دن پہلے حکومت سندھ کے وزیر داخلہ نے کراچی کے امن کی برفی تقسیم ہونے کے انتظار میں بیٹھے صحافیوں کے سامنے جب یہ اعلان کیا کہ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری پر قابو پانے کے لیے حکومت ٹینگو، وائبر، سکائپ اور ایسی ہی سمارٹ فوں ایپلیکیشنز پر پابندی لگا رہی ہے تو مجھے لگا کہ انہوں نے یہ پہیلی میری دادی کے پاندان کی کسی کلیا سے نکالی ہے۔

شعر کی گتھی تو ہماری دادی نے اسی دن سلجھا دی تھی کہ نا مگس باغ میں جائے گا نا پھولوں کا رس چوسے گا نہ اسے موم کا چھتہ بنانا پڑے گا نہ اس موم سے موم بتی بنے گی نا وہ موم بتی روشن ہوگی اور نہ پروانہ اس پر جل کر مرے گا۔ رہی اس پالیسی کی گتھی تو وہ مجھ سے ہفتے بھر میں بھی نہیں سلجھ سکی، ہاں اتنا اندازہ ضرور ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کے جرم میں سکائپ، ٹینگو، وائبر وغیرہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹنا پروانے کی ٹارگٹ کلنگ کے الزام میں مگس کی گرفتاری سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔

میری دادی نے جب اس شعرکا مطلب پوچھا تھا تو میں نے کسی نا کسی طرح صبر کر لیا تھا لیکن اگر میں شرجیل میمن صاحب کی پریس کانفرنس میں ہوتا تو ان سے یہ ضرور پوچھتا کہ کیا یہ سمارٹ فون ایپلیکیشنز ہی دہشت گردی کا سبب ہیں یا بم، بارود، اور بندوق جیسے بے ضرر آلات موسیقی پر پابندی لگا کر بھی کراچی میں موت کا رقص روکا جا سکتا ہے۔

درہ آدم خیل اور افغانستان سے جس اسلحے کے آنے کی خبر ہر اخبار میں چھپتی ہے وہ جن سڑکوں سے گزر کر سہراب گوٹھ یا لیاری پہنچتا ہے ان سڑکوں پر رینجرز کی سینکڑوں چوکیاں ہیں اور ان رینجرز کے پاس اتنے بے تحاشا اختیارات ہیں کہ وہ جب چاہیں کسی ٹیکسی ڈرائیور کی زندگی کی گاڑی ون وے توڑنے پر گولی مار کر روک سکتے ہیں پھر ایسا کون ہے جو ان رینجرز کو اسلحے سے بھری گاڑیاں روکنے سے روک دیتا ہے۔

پولیس کے تفتیش کے عمل کو بہتر بنانے اور عدالتی نظام کی خامیوں کو درست کرنے سے بھی جرائم میں کمی آ سکتی ہے یا جس کی حفاظت مقصود ہو اسے جیل میں ڈال دینا ہی وہ واحد ترکیب ہے جو ہمارے عالی دماغ سوچ سکتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہ صرف انتظامی اداروں کی نا اہلی ہے یا انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کے حوالے سے نچلے تریں درجوں پر موجود ملک میں سکیورٹی اور امن وامان کے نام پر رہی سہی آزادی چھین لینے کی ایک کوشش۔ کیوں کہ اس ملک میں جہاں یوٹیوب سمیت ہزاروں ویب سائٹس امن و امان کے بہانے بند ہیں وہاں نوائے افغان جہاد جیسے طالبان کے نمائندہ رسالے علامہ ایمن الذواہری اورجناب عدنان رشید حفظہ اللہ جیسے لوگوں کے انٹرویو چھاپنے کے باوجود درجنوں ویب سائٹس پر ہر مہینے باقاعدگی سے اپ لوڈ کیے جاتے ہیں اور ہر خاص و عام کو دستیاب ہیں۔

ممکن ہے کہ دہشت گرد قتل کرنے کے بعد سکائپ پہ اپنے دوستوں کو وکٹری کا نشان بنا کر دکھاتے ہوں لیکن حکومت کی وکٹری قتل عام روکنے میں ہے ٹینگو کی ٹانگیں توڑنے، سکائپ کا گلہ دبانے، یا واٹس ایپ کو پھانسی دینے میں نہیں، اس کام کے لیے پالیسی بنانے والوں کو 'سیانا' ہونا پڑے گا کیونکہ 'سمارٹ' تو فون بھی ہوتے ہیں۔


Read Comments