شہید فیکٹری
مذہب اور سیاست دو مختلف موضوعات ہیں اور ان کا ملاپ دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اگر نسیم حجازی، نوائے وقت اور علامہ اقبال کے بیان کردہ موقف سے ہٹ کر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معاشرے کے ارتقاء کے باعث مذہی عقیدے اور سیاست کو علیحدہ کیا گیا اور یہ امر انسانی ترقی پر منتج ہوا۔
ملک پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ ہماری سیاسی قیادت اس تفریق کو واضح نہ رکھ سکی --جس کی وجوہات نظریہ پاکستان سے وابستہ ہیں-- اور آج ہم ان کا بویا کاٹ رہے ہیں۔
بقول آئی اے رحمان صاحب، ”جس حکمران نے بھی خود کو سیاسی میدان میں ناکامی سے دوچار پایا اس نے مذہب میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس طرح وہ اپنے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست کو بھی دوہرے خطرے سے دوچار کرتے گئے“۔
(اس فہرست میں جناح صاحب سے لے کر جنرل مشرف، بینظیر بھٹو اور نواز شریف شامل ہیں)۔
پاکستان کے قیام کی سختی سے مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتوں نے آزادی کے بعد اپنے عقیدوں کی بنیاد پر پاکستان کو نظریاتی ریاست کا درجہ عطا کیا اور پھر اسی نظریے کے ٹھیکے دار بن گئے۔
پچھلے دنوں دو معروف مذہبی جماعتوں کے سربراہان نے کچھ مضحکہ خیز بیانات جاری کیے اور حسب معمول ذرائع ابلاغ میں موجود انکے حلیفوں نے ان بیانات پر خاموشی اختیار رکھی۔
ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود مردود کی ہلاکت پر غیرت برگیڈ کے ہاں صف ماتم بچھ گئی۔ اوریا مقبول، انصار عباسی، حامد میر اور اس قماش کے دیگر افراد نے محرم کی آمد سے قبل ہی ماتم کا آغاز کر دیا اور چوہدری نثار نے بھی اس مرثیہ خوانی میں شرکت کی۔
سونامی خان صاحب نے نیٹو سپلائی روکنے کی صدا بلند کی کیونکہ انکے خیال میں پاکستان کی ’خود مختاری‘ کو ٹھیس پہنچائی گئی۔
انہوں نے اس بات کی وضاحت البتہ نہیں کی کہ انکی اپنی جماعت کے وزراء اور انکی جماعت کے زیر حکومت صوبے میں سینکڑوں بے گناہ مارے جانے پر ملک کی خود مختاری اور سالمیت کے متعلق یہ شور و غوغا کیوں بلند نہیں ہوا۔
طالبان سے وفاداری جتانے کی اس دوڑ میں جماعت اسلامی کے امیر نے بیان داغ دیا کہ وہ حکیم اللہ محسود کو شہید سمجھتے ہیں۔
جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے سوتن کو برتری پاتے دیکھ کر حسد کے مارے اس سے بھی بڑھ کر بیان جاری کیا۔ وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق امریکی سفیر سے وزارت عظمی کی بھیک مانگنے والے مولانا نے کہا؛
"امریکہ اگر کسی کتے کو بھی مارے تو ہم اسے شہید سمجھیں گے"۔
حکیم اللہ کی ہلاکت پر مشتعل ہونے والوں، ملالہ پر کیچڑ اچھالنے والوں، پرویز ہودبھائی کو جاہل قرار دینے والوں نے ان بیانات پر منور حسن اور فضل الرحمان سے وضاحت طلب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
یاد رہے کہ سلالہ پر امریکی حملے میں پاکستانی فوجی جوانوں کی ہلاکت پر نیٹو سپلائی بند کی گئی تھی۔ کیا سونامی خان کے نزدیک حکیم اللہ اور پاکستانی فوجی افسران میں کوئی فرق نہیں؟
اس حملے میں میرا ایک دوست کیپٹن عثمان بھی شہید ہوا، کیا اپنے ملک کی سرحدوں کا وہ محافظ بیٹا اور غدّار حکیم اللہ کا درجہ سونامی خان کے نزدیک ایک ہی ہے!؟
تف ہے ایسے سیاست دانوں پر اور مذہب کے ان نام نہاد ٹھیکے داروں پر جن کی عقل پر پردے پڑ گئے ہیں۔ منافقت کے ان پیکروں نے ارض پاک کو داغدار کر رکھا ہے۔
بنگالیوں کو تو ہم نے نظریے کے نام پر علیحدہ کر دیا تھا، لیکن آج ہمیں ان سے بہت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب اور سیاست کی تفریق کو قانونی طور پر نافذ کرنا ہی شائد ہمیں تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔
سیاست اور مذہبی عقیدے کے متعلق بحث میں جناب وجاہت مسعود کے ایک مضمون سے اقتباس ملاحضہ کریں۔ ہماری ناقص رائے میں پاکستانی سیاست کے مرض کی تشخیص شائد اس سے بہتر الفاظ میں نہیں ہو سکتی؛
"دنیا کا کوئی عقیدہ انسانوں کو قانون شکنی، بد اخلاقی اور ظلم و ستم کی تلقین نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی میں ہمیں کسی شہری سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ قانون پسند ہو، اچھے معاشرتی اخلاق کا مالک ہو اور منصفانہ رجحانات رکھتا ہو۔ لہذا مذہب اور عقیدے کے فرق سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے قوانین، معاشرتی اصول اور سماجی ضابطے اور اخلاقیات کے پیمانے یکساں طور پر طے کیے جا سکتے ہیں"۔
ہر معاشرے میں اس بنیادی سماجی حقیقت سے انکار کرنے والے افراد موجود ہوتے ہیں تاکہ وہ نفرت اور تعصب کی آگ بڑھکا کر اپنے مفادات کی دوکان چمکا سکیں۔ ایسے لوگ اپنے عقائد کو صحیح اور دوسرے کے عقیدے کو برا سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کی پیروی کرنے والوں کو نیک اور اپنے سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو برا سمجھتے ہیں۔
یہ لوگ دوسروں کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ اپنے ضمیر اور اپنی سمجھ کے مطابق عقیدہ اختیار کر کے اس پر عمل کر سکیں، یہ لوگ خود کو سچائی، علم، سمجھداری اور دیانت داری کا آخری معیار سمجھتے ہیں اور زبردستی دوسروں سے اپنا عقیدہ تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔
یہ رویہ بنیادی طور پر غیر جمہوری ہے۔ اس سے معاشرتی امن کی بجائے تشدد کو فروغ ملتا ہے۔ معاشرہ ترقی کرنے کی بجائے زوال کا شکار ہوتا ہے۔ معاشرے کے مالی اور انسانی وسائل، انسانی زندگی کے نت نئے امکانات سے فائدہ اٹھانے اور سماجی، علمی، معاشی، سیاسی اور فکری لحاظ سے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے بے مقصد خون خرابے اور لاحاصل تنازعوں میں ضائع ہوتے ہیں۔
امن پسند شہری احساس تحفظ کھو بیٹھتے ہیں، گلیوں میں خون بہتا ہے، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوتی ہیں اور اپنے گھروں کی کفالت کرنے والے نوجوان بے معنی جنون کی نذر ہو جاتے ہیں۔
نفرت کا کاروبار کرنے والے مختلف عقیدوں کی اچھی باتوں کو نظر انداز کر کے محض اختلافی نکتے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور اپنی تحریروں اور تقریروں سے اشتعال پھیلاتے ہیں تاکہ معاشرہ امن کی بجائے بدامنی کا شکار ہو جائے، ان کی نام نہاد قیادت کا سکہ چمکے اور یہ لوگ اپنی شر انگیزی کے بل پر انتظامیہ کو بلیک میل کر کے مفادات بٹور سکیں۔ یہ لوگ تنقیدی شعور کی بجائے سستے جذبات کی چھابڑی لگاتے ہیں اور اس طرح اپنے مذہبی پیشواؤں کے نیک نام کو بھی بٹہ لگاتے ہیں۔"
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
