Dawn News Television

شائع 18 اگست 2012 01:51pm

موبائل سِم کی آزادی

یوفون دوسری ٹیلی کام کمپنیوں سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پاکستانی کمپنی ہونے کے ناطے اس کی جڑیں ملک میں ہیں۔۔ یہ کمپنی جو اپنے مزاحیہ اشتہاروں کی وجہ سے مشہور ہے، اس دفعہ ایک جذبات بھرا اشتہار بنا کر توجہ کا مرکز بنی رہی۔

یوفون اگست کا مہینہ پورے جوش و خروش سے منا رہا ہے اور اس اشتہار میں ہر پاکستانی پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے پرچم کو بلند کریں اور اپنے وطن کی ہر کامیابی پر فخر محسوس کریں۔

یوفون نے اس اشتہار میں قومی پرچم کا استعمال کیا ہے جو ہمارے ملک کی پہچان اور طاقت ہے۔ یہ اشتہار ماضی میں اپنے پرچم سے محبت کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یہ اشتہار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ہم فخر سے اپنا پرچم لہراتے تھے، آزادی کے دن کو شان سے مناتے تھے اور ہرا رنگ پہنتے تھے، جھنڈے اور بیج خریدتے تھے اور اپنے گھروں کو جھنڈیوں اور روشنیوں سے سجانے کی ایک سالانہ رسم مناتے تھے۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایات بھی ختم ہوگئیں اور ہم اپنے اندر کے جوش اور فخر سے محروم ہوگئے۔

http://www.youtube.com/watch?v=MeKd0yUiCE4

وسیم اکرم کو اس اشتہار میں شرکا کی قیادت کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ ایک قومی ہیرو ہیں اور ان کے اس جملے نے ' آگر آج ہم دوبارہ جھنڈے لہرانا شروع کردیں تو یقیناً دوبارہ جھنڈے گاڑنا بھی شروع کر دیں گے'، لوگوں کو جذباتی کر دیا اور اس طرح وہ اپنے پیغام کے ذریعے بےشمار لوگوں کے دلوں کو چھونے میں کامیاب ہوئے۔

اب اگر ہم اسے دوسرے رخ سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یوفون نے لوگوں میں اس طرح کے جذبات اجاگر کر کے صرف یومِ آزادی کو ہی نہیں بلکہ اپنی کمپنی کی بھی ترویج کی ہے اور یہی کام آجکل ہر سب کر رہے ہیں۔

عید، رمضان اور یوم آزادی کے دن کا بہانہ بنا کر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا عام ہو گیا ہے۔

اس اشتہار کو دیکھنے کے بعد زیادہ تر لوگوں نے پرچم خریدنے کے بجائے یوفون سم خریدنے کو ترجیع دی ہو گی اور خاص طور پر ایسے میں جب یوفون کسٹمرز کو ایک سرپرائز گفٹ بھی دیے رہا ہو۔

بلاآخر یوفون نے جو چاہا وہ کردکھایا۔ وہ بھی نہایت محدود سوچ رکھنے والے عوام کی قیمت پر۔ یوفون نے اپنے کسٹمرز کو چودہ منٹ دیے اور اس طرح انہوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ آزادی کے دن کو نہیں بلکہ اپنے برینڈ کی شہرت کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ وسیم اکرم، جنہوں نے اس برینڈ کے گزشتہ اشتہار میں 'جیل سے فرار ہونے والے قیدی کا کردار نبھایا تھا'،  یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک سے وفادار رہیں؟

یقیناً آپ میں سے بہت لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان دونوں اشتہاروں کا آپس میں تعلق نہیں جوڑا جا سکتا اور ہمیں اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ۔ لیکن کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ کمپنیاں اپنے تصور، سیٹ، پروڈکشن اور برینڈ ایمبیسیڈر پر بہت سا پیسہ خرچ کرتی ہیں اور وہ یقیناً یہ چاہتی ہیں کہ لوگ انہیں سنجیدگی سے لیں ورنہ وہ کیوں اتنا پیسہ خرچ کریں گے؟

اور آگر انہیں ایسا کرنا ہی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ جذبات کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ایسے آئیڈیے پر پیسے خرچ کریں جس کا لوگوں پر لمبے عرصے تک اثر رہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موقع کی منابست سے اشتہار بہت اچھے پیغام کے ساتھ عکس بند کیا گیا تھا لیکن کاش اشتہار کچھ ایسے آئیڈیاز کے ساتھ بنتے جو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے ان کی توجہ فوری طور پر برینڈ کی جانب دلاتے۔

مصنف کے مختلف اشتہارات پرتنقیدی جائزے پڑھنے کیلیے کلک کریں۔


Read Comments