نقطہ نظر

باتیں ہاجرہ آپا کی

ہاجرہ مسرور کے دلچسپ اور تاریخی انٹرویو کا احوال، آصف نورانی کے قلم سے۔

ہاجرہ مسرور برِ صغیر کی اُن چند ادبی شخصیات میں سے تھیں جنہوں نے تقسیم سے پہلے لکھنا شروع کیا تھا، اب ہم میں نہیں رہیں۔ وہ پندرہ ستمبر کی صبح انتقال کرگئیں۔ انہیں کافی عرصے سے بیماریوں نے آگھیرا تھا۔

وہ کچھ دن اسپتال میں گذارتیں اور کچھ دن گھر پر۔ انہوں نے ڈاکٹروں اور اپنے قریبی ساتھیوں کے سختی سے منع کرنے کے باوجود، اپنے ایک ساتھی سگریٹ کو نہیں چھوڑا تھا۔ باوجود اس کے کہ اُن کے پھیپڑے جواب دے چکے تھے اور انہیں سانس لینا بہت دشوار ہو گیا تھا۔

سچ پوچھیے تو اُن کے شوہر احمد علی خان، جو ایک مشہور و معروف صحافی تھےاور اپنے اندر ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے، کے انتقال کے بعد وہ تنہا رہ گئی تھیں۔

یوں تو اُن کی دو بیٹیاں تھیں۔ چھوٹی کنیڈا میں ہیں اور آتی جاتی رہتی تھیں، دوسری اُن کے ساتھ تھیں، چاہنے والا داماد تھا اور دو نواسے بھی، پھر اُن سے ایک کی اولاد بھی تھی۔

غرضیکہ گھر بھرا پُرا تھا لیکن ستاون سال کی رفاقت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے۔ خان صاحب کا انتقال سن دو ہزار سات عیسوی میں ہوا تھا۔

ہاجرہ مسرور، جنہیں سب پیار اور عقیدت سے ہاجرہ آپا کہتے تھے، انٹرویو دینے سے کتراتی تھیں۔ اگر ایک آدھ دفعہ کسی کو اجازت بھی دی تو وہ صاحبہ بہت جلد ہمت ہار گئیں۔ کیونکہ انٹرویو دینے سے پہلے انہوں نے یہ شرط لگادی تھی کہ میں اسے پڑھوں گی۔ جب تک اجازت نہیں دوں گی آپ اسے نہیں چھپوائیں گی۔

دو ایک چکّر لگانے کے بعد اُن خاتون نے کان پکڑ کر توبہ کرلی۔

 خان صاحب جب تک ڈان کے مدیر تھے، نہ تو ہاجرہ آپا کے بارے میں کچھ چھپتا تھا اور نہ ہی اُن کی قابل بیٹی نوید احمد طاہر کے متعلق، جو جامعہ کراچی میں یورپین اسٹڈیز کے شعبے کی سربراہ تھیں۔

 جب خان صاحب نے طویل اور شاندار ادارت سے  ریٹائرمنٹ لی تو مشہور صحافی اور خان صاحب کی مرید زبیدہ مصطفیٰ نے مجھ پر ہاجرہ آپا کا انٹرویو کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔

زبیدہ نے اس سے پہلے اُن سے میرا نام لیا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ ہاجرہ آپا نے حامی بھرلی۔ میں اُن خاتون کا حشر دیکھ چکا تھا اور مجھے علم تھا کہ اب مجھے جوئے شِیر لانا پڑے گا۔

انہوں نے انٹرویو دیا اور کچھ مزے کی باتیں بتائیں۔ مثلاً یہ کہ ساحر لدھیانوی اُن سے شادی کرنا چاہتے تھے۔

جب میں نے اُن کو تحریر شدہ انٹرویو دکھایا تو کہنے لگیں کہ یہ میں نے صرف آپ کو بتایا تھا، شائع کرنے کے لیے تھوڑی کہا تھا۔ اور بھی تبدیلیاں کیں۔

غرضیکہ تین دفعہ انٹرویو میں تبدیلیاں کیں۔ خان صاحب چپ چاپ کمرے میں بیٹھے یہ سب کچھ سنتے اور دیکھتے۔

میں نے ایک موقع پر جھنجلا کر کہا 'ہاجرہ آپا میں اور بھی بڑی شخصیات کا انٹرویو کرچکا ہوں مثلاً ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت، ہندوستان کے وزیرِ اعظم اِندر کمار گجرال اور کئی بڑے ادیب اور فنکار لیکن کسی نے میرا یہ حشر نہیں کیا۔

پیشتر اس کے کہ وہ کچھ کہتیں خان صاحب کو مجھ پر ترس آگیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اب یہ لکھا ہوا انٹرویو مجھے دے دیں، میں اس کی نوک پلک درست کرکے آپ کو بھجوادوں گا۔

جب انٹرویو ڈان کے مقبول صفحات 'بُکس اینڈ آتھرز' میں شائع ہوا تو ہاجرہ آپا کا فون آیا۔ 'آصف میاں انٹرویو تو آپ نے بہت اچھا  لکھا۔ آپ ایسا کیجیے کہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہمارے غریب خانے آئیے اور چائے پیجیے۔'

میں نے کہا چائے اور اُس کے لوازمات کے ساتھ تو آپ نے میری ہر نشست میں خوب خاطر مدارت کی ہے، البتہ بیگم صاحبہ کے ساتھ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔

انٹرویو کی کچھ باتیں سن لیجیے۔

 انہوں نے بتایا کہ وہ لکھنئو میں، اُنیسّو تیس میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کا تعلق ایک متوسط پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔

ان کی پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ گھر کتابوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اورادبی پرچوں کی بھی ریل پیل تھی۔

والد کا جب انتقال ہوا تو وہ پرچے آنے بند ہوگئے لیکن بہت جلد، جب اُن کی بڑی بہنوں افراح جمال اور خدیجہ مستور نے اُن پرچوں میں لکھنا شروع کیا تو وہ پرچے پھر سے آنے لگے۔

کہانیاں تو ایک چھوٹی بہن بھی لکھتی تھیں لیکن باضابطہ خدیجہ اور ہاجرہ نے لکھا۔

ہاجرہ آپا نے بتایا کہ بہت کم عمری میں ایک ادبی جریدے، جس کا انہیں نام یاد نہیں آرہا، اس میں، ان کی پانچ کہانیاں چھپی تھیں اور انہیں پندرہ روپے بطور معاوضہ کے ملے تھے۔

تقسیم سے پہلے اُن کی کہانیوں کے دو مجموعے شائع ہوئے تھے۔ پہلا مجموعہ چرخے کے نام سے تھا، جس کے انہیں چالیس روپے ملے تھے۔ وہ مجموعہ خوب بکا۔

 دوسرا مجموعہ ہائے اللہ کے نام سے تھا، جس کے انہیں چھ سو روپے ملے جو اُن دنوں بہت بڑی رقم تھی۔

اُنیس سو پینتالیس یا چھالیس میں خدیجہ اور ہاجرہ کی کہانیاں اُن کی زبانی آل انڈیا ریڈیو کے لکھنئو اسٹیشن سے نشر ہوئیں۔ ہاجرہ آپا کو سن اچھی طرح یاد نہیں رہا تھا۔

جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو یہ خاندان لکھنئو سے بذریعہ ریل بمبئی، بذریعہ بحری جہاز کراچی اور بالآخر ریل سے لاہور پہنچا۔ اُن دنوں لکھنئو سے براہ راست آنا خطرے سے خالی نہ تھا۔

جب وہ لاہور پہنچے تو اُن کو کوئی لینے نہیں آیا۔ ان کے نسرین پبلشرز کو اُن کا پیغام نہیں ملا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کو جو اُن کے منہ بھولے بھائی تھے، جب خبر ملی تو وہ پشاور، جہاں وہ کسی کام سے گئے تھے، بھاگم بھاگ لاہور پہنچے۔

اس خاندان کو کچھ دنوں کے لیے فِکر تونسوی کے گھر پناہ دی گئی۔ فِکر صاحب جب لاہور سے ہندوستان جارہے تھے تو انہوں نے قاسمی صاحب کے حوالے گھر کی چابی کردی تھی۔

خیال یہ تھا کہ حالات جب سنبھلیں گے تو فِکر تونسوی اپنے گھر والوں کے ساتھ واپس لاہور آجائیں گے۔

سن اُنیسّو پچاس میں ان کی شادی ایک شریف اور ہونہار نوجوان صحافی سے ہوگئی، جن کا نام احمد علی خان تھا اور جن کا تعلق بھوپال سے تھا۔

انٹرویو کے درمیان میں نے ہاجرہ آپا سے پوچھا کہ کیا بات تھی کہ آپ اورآپ کی بڑی بہن خدیجہ مستور، دونوں نے ایک ہی ماحول میں پرورش پائی لیکن دونوں کی تحریروں میں اور اُن کے مزاج میں اتنا فرق کیوں ہے؟

ہاجرہ آپا کا کہنا تھا:

'صرف ابتدائی ماحول ایک سا تھا بعد میں تو ہم نے الگ الگ ماحول میں زندگی گزاری ہے۔ قدرتی طور پر کوئی دو شخص بالکل ایک سے نہیں ہوتے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اب یہی دیکھ لیں کہ اُن کی نثر میں بے ساختگی ہے اور میری نثر میں اس لیے نہیں ہے کہ میں ہر چیز شائع ہونے سے پہلے بار بار پڑھتی اور اسے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔'

ہاجرہ آپا کا کہنا تھا کہ مجھے یاد آرہا ہے کہ ہمارے ابّا کے دوست بابو گنگا دھر ناتھ، جو ساقی نامی ادبی رسالے میں لکھا کرتے تھے، ہم دونوں کو بُلا کرکہا کہ تم لوگوں کو خانہ بدوش لڑکی کے متعلق کہانی لکھنی ہے۔ ہمیں یہ بھی کہا کہ ایک دوسرے سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے۔

 غرضیکہ صاحب ہم دونوں نے کہانیاں لکھیں اور وہ دونوں پسند کی گئیں اور دونوں کہانیاں ہمارے مجموعوں میں بھی چھپی اور لوگوں نے پسند بھی کی۔ اگر آپ کو وہ کہانیاں مل جائیں تو آپ پڑھیے گا۔ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔'

میں نے اُن سے بھی پوچھا کہ آخر کیا بات ہے کہ خدیجہ مستور نے افسانوں کے علاوہ دو ناول بھی لکھے، آپ نے کیوں اس میدان میں قدم نہیں رکھا؟ آپ نے صرف افسانے لکھے۔

جواب آیا 'خدیجہ میں مستقل مزاجی مجھ سے زیادہ رہی ہے اور وہ کوئی کام بھی کرتی تھیں تو اس میں دیر تک ڈوبی رہتیں۔ پھر اُن کو نوکر چاکر کی بھی کوئی دقت نہیں تھی۔'

ہاجرہ آپا نے بتایا کہ اُن کے افسانوں کے چھ مجموعے چھپ چکے ہیں۔

 اُنیسّو اٹھانوے میں ایک ضخیم جِلد شائع ہوئی، جس میں سارے افسانے شائع ہوئے۔ کچھ سال پہلے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے ان کی بچوں کے لیے لکھی کہانیوں کے دو مجموعے بھی شائع کیا۔

ان کے مختصر ڈراموں کا مجموعہ 'وہ لوگ' کے نام سے چھپا ہے۔

کچھ فلمی شائقین کو یاد ہوگا کہ سن ساٹھ کی دہائی کے دوسرے نصف میں انہوں نے مشرقی پاکستان میں مقیم شاعر اور فلم ساز سرور بارہ بنکوی کے لیے 'آخری اسٹیشن' نامی فلم کی کہانی اور مکالمے بھی لکھے تھے۔

وہ فلم حقیقت سے قریب ترین تھی۔ شبنم نے اس میں ایک پاگل لڑکی کا کردارادا کیا تھا جو برما کی سرحد کے قریب واقع ایک غیر معروف ریلوے اسٹیشن پر منڈلاتی رہتی ہے۔

پچھلے دنوں جب کئی سال بعد شبنم پاکستان آئیں تو ایک ملاقات میں انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ اس فلم میں ان کی اداکاری اور فلموں کی نسبت بہت بہتر تھی۔

انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس فلم کی کہانی اتنی متاثر کُن تھی کہ انہیں ایسا لگا کہ وہ خود بخود اس لڑکی کے کردار میں ڈھل گئیں۔

ہاجرہ مسرور نے کئی سال پہلے لکھنا بند کردیا، جس کی انہوں نے کوئی قابلِ مقبول وجہ نہیں بتائی۔

کہتی تھیں کہ وہ اپنی یادوں کو قلمبند کرنے والی ہیں لیکن اُن کا حافظہ بھی کمزور ہوگیا تھا اور یکسوئی سے بیٹھ کر لکھنا ان کے بس سے باہر ہوگیا تھا۔

لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ ان کی تحریریں پڑھ کر آج بھی اتنا ہی لطف آتا ہے جتنا آج سے چالیس سال پہلے آتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینیئر صحافی اور ادیب آصف نورانی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان اردو ڈیسک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔