حالیہ برسوں میں جیسے جیسے تشدد اور دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے مختلف اجتماعات اور اجلاسوں میں مذہبی انتہا پسندی کو زیر بحث لایا جارہا ہے کیونکہ ان واقعات سے ان بہت سےلوگوں کے دعوؤں پر منفی روشنی پڑتی ہے جو پاکستان کی اسلامی شناخت کی بات کرتے ہیں -
نتیجتا عوام پریشان ہیں کیونکہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ مذھب کے نام پر ہو رہا ہے- لیکن اس کے باوجود حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں.
کیا ایسا ہونا چاہئے تھا؟ پاکستان کو جسے برصغیر کےمسلمانوں کے وطن کے نام پر سیکولر لیڈروں کی رہنمائی میں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا، قیام کے فورا بعد ہی ان عناصر نے ہتھیا لیا جنہوں نے اسلام کو معاشرے اور ریاست پر کنٹرول پانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا- یہ وہی جماعتیں تھیں جنہوں نے بآواز بلند پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی.
کمزور اور بے اعتمادی کے شکار سیاسی رہنماؤں نے جو مسلسل مذہبی ریاست کی حمایت کرنے سے انکار کر رہے تھے، مدافعتی پوزیشن اختیار کر لی- وہ اس بات کی پیش بینی نہ کر پاۓ کہ ان کے کمزور رویہ کا نتیجہ کیا ہوگا- چنانچہ، مسلم لیگ پورے طور پر عوام کے سامنے اسلام کے کاز کی علم بردار بن گئی- ١٩٤٩ میں مجلس مقننہ نے قرارداد مقاصد منظور کی جو اس کمزوری کا اولین مظہربن گئی .اس کے نتیجے میں جلد ہی مسلم اکثریت اوردیگر مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی.
١٩٧٤ میں ذوالفقارعلی بھٹو نے جو ایک لبرل اور سیکولر رہنما سمجھے جاتے تھے، خود کو سیاسی طور پر کمزور پاکر مذہب کا کارڈ استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی . انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیدیا اور اس طرح ریاست کو یہ حق دیدیا گیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم- اس کے باوجود بھی وہ نہ تو اپنا سیاسی کیرئر بچا سکے اور نہ ہی اپنی زندگی-
ہم نے ایسا تو نہیں سوچا تھا؟ جب ١٩٤٠ کی قراداد پاکستان منظور کی گئی تھی، جس میں مسلمانوں کے وطن کے طور پر" آزاد ریاستوں" کا تصور پیش کیا گیا تھا تو اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا :
" ان ریاستوں اور ان ریاستوں کی اقلیتوں کو (جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں) آئین میں خاص طور پر معقول، موثر اور یقینی تحفظات فراہم کے جائینگے تاکہ ان کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کا تحفظ، ان کی مشاورت کے ساتھ کیا جا سکے"
گیارہ اگست ١٩٤٧ کو قانون ساز اسمبلی میں اپنی افتتاحی تقریر میں قاعد اعظم نے کہا تھا؛
"آپ آزاد ہیں، آپ آزادی کے ساتھ اس ریاست پاکستان میں، اپنے مندروں، اپنی مسجدوں یا دیگر عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں- آپ کا تعلق خواہ کسی مذھب، فرقے یا عقیدے سے ہو اس کا ریاست سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں، مساوی شہری".
تو پھر کیا غلطی ہوئی؟ غیر مسلم ایک ایسی ریاست میں کیوں عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کے بانیوں نے انھیں مکمل تحفظ کا یقیں دلایا تھا؟ ملازمتوں اور تعلیم کے میدان میں ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ان پر کفر کے خطرناک الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی نوجوان بیٹیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور زبردستی انکا مذھب تبدیل کر دیا جاتا ہے، انھیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہو یہ رہا ہے کہ جو بھاگ سکتے ہیں، وہ اس ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں-
گوکہ ایک وسیع اکثریت ان باتوں کو پسند نہیں کرتی لیکن ان میں اتنی طاقت اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ببانگ دہل اس کا اظہار کر سکیں کیونکہ ریاست اپنے شہریوں کو، خواہ انکا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو، تحفظ فراہم نہیں کرتی- چنانچہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد خوف و دہشت کا شکار ہے-
قومی کمیشن براۓ امن و انصاف کی رپورٹ میں ہماری درسی کتابوں کے متن کا حوالہ دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کس طرح ارباب اختیار دیگر مذاہب کے خلاف سرگرمی کے ساتھ نفرت کو فروغ دیتے رہے ہیں- مذھب کو مسخ کرنے کی ان کوششوں نے اقلیتوں کے لئے سماجی اور معاشی فضا کو تہ و بالا کر دیا ہے اور ملّا عناصر کی مہم کو تقویت پہنچائی ہے کہ وہ پھر سے معاشرے پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکیں -
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاۓ اور غیر معقول انتہا پسند ریاستی پالیسیوں پر مکمل غلبہ حاصل کر لیں- پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں غیر مسلم آبادی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ انھیں "اقلیتیں" کہا جاتا ہے- ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک امتیازی اور تنہا کردینے والے رویہ کی نشان دہی کرتا ہے، جو انہیں قومی دھارے سے جدا کرتا ہے اور اس مساویانہ حق کی نفی کرتا ہے جو انھیں آئیں کی شق ٢٥ کے تحت حاصل ہے-
گرچہ بنیادی قوانین کے تحت غیر مسلموں کے حقوق کو بہت سے تحفظات فراہم کے گئے ہیں لیکن پاکستان کے تعزیری (پاکستان پینل کوڈ) میں ایسی دفعات بھی موجود ہیں جو ان تحفظات کی نفی کرتی ہیں.
موجودہ صورت حال میں مذہبی جماعتوں کو وسیع مواقع حاصل ہیں جن کے ذریعہ وہ اقلیتوں کو تنہا کردینے کے اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھا رہے ہیں- الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ بھی اس سارے معاملے میں قابل نفرین رول ادا کر رہا ہے- وہ اقلیتوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے اسلام کے نام پر نفرت کے بیوپاریوں کی غیر ضروری تشہیر کر رہے ہیں- کیا کسی نے ان کے اصل محرکات کو جاننے کی کوشش کی ہے؟
اصغر علی انجینئر ہندوستان کے سماجی کارکن ہیں جنہوں نے ہندوستان میں ہونے والے درجنوں فسادات کے بارے میں تحقیق و تفتیش کی ہے- ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہی دیکھا ہے کہ مذھب کے نام پر ہونے والے تشدد کے ہر واقعہ کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی معاشی محرک ہوتا ہے- کبھی معاملہ زمین کے مالکانہ حقوق کا ہوتا ہے تو کبھی کاروباری رقابت کا یا ملازمت اس کا سبب بنتی ہے- ہمارے معاملے میں سیاسی طاقت کی طمع بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے.
اس تناظر میں سابقہ سنیٹر اقبال حیدر کا یہ قدم کہ سیکولرزم کو فروغ دینے کے لئے ایک جمہوری اور غیر جماعتی پلیٹ فارم تشکیل دیا جاۓ، اہمیت کا حامل ہے- فورم کی افتتاحی تقریب میں یہ اعلان کیا گیا ہے عوام میں سیکولرزم کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے اور قانون سازوں، ریاست کے ارباب اختیار، میڈیا اور ٹریڈ یونینوں کے تعاون سے قوانین میں موجود تحریفات کو دور کرنے کی کوشش کی جائیگی یہ فورم سب کیلئے سماجی انصاف کی بنیاد پر پاکستانی قومیت کی ایک نئی تاریخ رقم کریگا.
یہ کام اتنا آسان بھی نھیں ہے لیکن سابقہ سنیٹر کو مخلص حامیوں کا تعاون حاصل ہے- فی الحال اس تحریک کی رفتار سست ہے اور جب تک اس فورم کے دائرے کو بڑھاکر اسے عوامی تحریک کی شکل نہ دی جاۓ اس کے اثرات دکھائی نہ دینگے- شعور اور بیداری کی عدم موجودگی نے جہل پسندی اور ترقی کی دشمن قوتوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے.
http://www.zubeidamustafa.com/urdu/
ترجمہ: سیدہ صالحہ