Dawn News Television

شائع 31 دسمبر 2012 09:00am

عقل' سے نفرت'

وہ کونسے اسباب ہیں جو پاکستانی عوام کے ذہنی میلان کو خود تباھی کی طرف دھکیلتے ہیں؟

اس کا اظہارگزشتہ چند ہفتوں کے دوران تسلسل سے واقع ہونے والے واقعات کی صورت میں ہوچکا ہے- ان رجحانات اور میلانات کے نتائج میں جس تواتر سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ شدید بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کا سامنا کرنے کی سکت ہماری کمزورریاست میں نظر نہیں آتی-

احمقانہ عناصر کی آمیزش سے پر اس ذہنی رجحان کا مکمل اظہا ر ان قاتلانہ حملوں میں ہوا جو پولیو کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں حصہ لینے والے صحت سے متعلقہ عملے پر کئے گئے جن میں سے چند حملے کامیاب بھی رہے-

پاکستان میں پولیو کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں- اس مخالفت کی وجہ کسی طور پر بھی اس لئے نہیں ہے کہ بعض طبی طریقہء علاج کی جانب سے ایلوپیتھی کے طریقہ علاج کو مسترد کردیا گیا ہے- نہ ہی یہ فرد کے اس حق پر مبنی ہے کہ وہ جو چاہے طریقہ علاج اپنے لئے منتخب کر سکتا ہے خواہ اس کے نتیجے میں وہ ایک صحت مند زندگی کے مقابلے میں تکلیف برداشت کرنے کو کیوں نہ ترجیح دے-

بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی مخالفت پہلے پہل تو اس بہانے کی گئی کہ یہ ایک مغربی سازش ہے جس سے بچوں کے جسم کے خلیوں کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے- اس دلیل کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ اس کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہ کئے جا سکے- بعد ازاں بعض گوشوں کی جانب سے ایمان کی بنیاد پر اس مہم کی مخالفت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی- لیکن جب دانشوروں کی اچھی خاصی تعداد نے بائیکاٹ کی مہم کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو انکا یہ داؤ بھی ناکام ہو گیا.

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک سائنسی طریقہ علاج کی مخالفت کس طرح صحت کے عملے کے خلاف دشمنی کا رخ اختیار کر گئی- شعبہ صحت سے متعلق کارکن تو لوگوں کی مدد محض اسلئے کرتے ہیں کہ وہ بیمار نہ پڑیں یا پھر بیماریوں سے صحتیاب ہو جائیں- جو لوگ ان عورتوں اور مردوں کو ہلاک کرتے ہیں وہ خود کو ایسے پیشہ ورانہ لوگوں کی خدمات سے محرم کر دیتے ہیں جن سے انھیں کسی عارضہ سے صحتیاب ہونے میں مدد مل سکتی ہے یا جو ان کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ جوڑ سکتے ہیں- اس سے بڑا احمقانہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان لوگوں کی جان لے لیں جو ہمارے پیا روں کی زندگیوں کو خطروں سے بچائیں.

مزید یہ کہ یہ لوگ نہ تو کسی کو اس بات پر مجبور کر تے ہیں کہ وہ پولیو کے خلاف احتیاطی تدابیر کے طور پر قطرے پلوائیں یا کسی اور عارضے کی روک تھام کرنے والے انجکشن لیں- ہر طرح سے لوگوں نے ان کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی، اپنے دروازے بند کردئے اور اس حد تک تشدد پر اتر آئے کہ انھیں ہلاک کردیا- یہ کام محض بدترین نفرت کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے جو احمقانہ عدم برداشت کے نتیجے میں پرورش پاتا ہے جو ہمارے ذہنی میلان کی ایک اور بدنما خصوصیت ہے.

بریجیٹا الزبتھ المیبی کی موت جو ایک اور نامعلوم حملہ آور کی گولی کا شکار ہوئی اور وہ بھی اس شہر میں جسے پاکستان کا ثقافتی دارالخلافہ کہا جاتا ہے، پوری قوم کی پیشانی پر ایک داغ ہے- اس عورت کا جرم کیا تھا؟ کیا اس کا جرم یہ تھا کہ اسنے اپنا گھربار اورسویڈن کے عوام کو چھوڑکر اپنی زندگی کے تیس سے زیادہ برس پاکستان کے غریب نوجوانوں کی مدد کرنے میں گزار دئیے تاکہ وہ علم وہنر کی دولت حاصل کرکے ایک بہتر معیار زندگی اختیار کر سکیں؟

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ عدم برداشت اور تنگ خیالی کی اس لہرکا شکار ہوئی جو جہادی انتہا پسندوں نے پیدا کی تھی اور جو غیر مسلموں اور انکی نظر میں مرتد اور ملحد مسلمانوں کو بھاری تعداد میں ہلاک کر رہے ہیں- یہ تاثر اس صورت میں ختم ہو سکتا تھا کہ پولس مجرموں کو پکڑتی یا کسی متبادل سازش کا پتہ چلاتی- ایک موقع پر تو یہ بھی کہا گیا کہ اس نہتی عورت پراس خوفناک حملے کا محرک چوری تھا کیونکہ انکے پاس بھاری مقدار میں نقدی موجود تھی- ایسی صورت میں کوئی بھی ذمہ دار انتظامیہ بر وقت کارروائی کرکے ہر صورت میں مجرموں کو پکڑ سکتی تھی بشرطیکہ اسے اندرون ملک اور بیرون ملک اپنی نیک نامی عزیز ہوتی- لیکن بےغیرتی کی انتہا ہمارے ذہنی میلان کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہے.

سندھ کے ایک گاؤں میں ایک شخص کو پولیس کی تحویل میں ہونے کے باوجود اس شک کی بنیاد پر زندہ جلادیا جاتا ہے کہ اس نے قران پاک کی بے حرمتی کی تھی- اس سرد رات اس بدبخت انسان کو پناہ دینے والا کوئی نہ تھا چنانچہ اس نے الله کے گھر میں پناہ لی تھی- صبح کے وقت چند لوگوں کو وہاں جلے ہوے کاغذ کے چند ٹکڑے ملے اور انہوں نے یقیں کر لیا کہ اس شخص نے قران پاک کے اوراق کو نذر آتش کر دیا ہے- اس واقعہ کا کوئی عینی گواہ موجود نہ تھا- پولیس نے اس شخص کو اپنی تحویل میں لے لیا لیکن ہجوم کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بات کافی نہ تھی جو اسے قتل کرنا چاہتے تھے- ہجوم نے اسے پکڑ لیا اور اسے زندہ جلا دیا گیا-

اس واقعہ سے ایک بار پھر اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ ریاست کے رکھوالوں اور عوام کے ایمان کے محافظوں نے ہر شخص کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں اور ہر اس شخص کو قتل کردیں جس پر ایمان کے تعلق سے کسی بھی جرم کے مرتکب ہونے کا شک و شبہ بھی ہو- اس سے اس بات کی بھی توثیق ہوتی ہے کہ خود پولیس بھی اس خاص عقیدہ کے حامل ہجوم میں شامل ہو گئی ہے- وہ اس شخص کی حفاظت نہیں کریگی جو اسکی تحویل میں ہے چاہے اس شخص کو ہجوم سے خطرہ لاحق ہو، اور ایسی صورت میں تو ہرگز اس کا تحفظ نہیں کریگی کہ خود انکو (پولیس کو) ہجوم کی جانب سے خطرہ لاحق ہو-

اس وقت عدم برداشت اور نارواداری کا سب سے زیادہ بعید ازعقل شکار تو (غنڈہ گردی کرنے والوں، زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والوں، قاتلوں یا باغیوں وغیرہ کو چپ چاپ قانون کے دائرے میں رہتے ہوۓ برداشت کرنا ناواجب نہیں ہے) جمہوریت، پارلیمنٹ اور سیاست ہے- پاکستانی سیاست دانوں کی اس روایت کی بدولت کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو اپنا مخالف اور ریاست کا بدترین دشمن سمجھتے ہیں اور عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے میں ان کی ناکامی نے خود انہیں مختلف قسم کے افسروں، نجومیوں، میڈیا پنڈتوں اور اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر جذباتی تقریریں کرنے والوں کا آسان نشانہ بنا دیا ہے- اس کے نتیجے میں جعلی-مذہبی انتہا پسند، فیوڈل سردار اور ایسے گینگ طاقتور ہو گئے ہیں جن کی سرپرستی وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں- یہ لوگ ان سیاست دنوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جنھیں وہ پسند نہیں کرتے-

بشیر بلور کے قتل سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ تشدد یا تشدد کی دھمکی کو بدامنی پھیلانے کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائیگا تاکہ انتخابات منعقد نہ ہو سکیں اور ضیاء الحق کے نظام کو بحال کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے، یعنی غیر جماعتی نظام یا ایک پارٹی کی حکومت نیز سیاسی سرگرمیوں میں عدلیہ اور مسلح افواج کا عمل دخل وغیرہ وغیرہ. اگر کسی وجہ سے یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے اور کسی بھی قسم کے انتخابات کو التوا میں نہ ڈالا جا سکے تو پھر تشدد آمیز رویہ اختیار کر کے مخصوص سیاستدانوں کو جلسے جلوس منعقد کرنے سے روکا جائے، ناپسندیدہ امیدواروں کو گھر بٹھا دیا جائے اور ووٹروں سے کہا جائے کہ وہ ووٹ ڈالینگے تو اپنی زندگی کی قیمت پر-

عوامیت پسند سیاست کا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- اس قسم کی سیاست کرنے والے افراد اپنے مخالفین سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جنہیں پورا کرنا ممکن نہں ہوتا اور ایسے وعدے کرتے ہیں جنین عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا- اسے دو لحاظ سےعقل و معقولیت پر بدترین حملہ کہا جا سکتا ہے- اول تو یہ کہ عوامیت پسند سیاست عوام کے ذہنوں کو سلادیتی ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ جعلی کرشمہ سازوں کی بدولت ان کے اچھے دن آئینگے- چنانچہ وہ تبدیلی لانے والوں کی حیثیت سے اپنا رول ادا نہیں کرتے- دوسرے یہ کہ، عوامیت پسند سیاست کرنے والے رہنما ان امکانات پر غور نہیں کرتے کہ عقل و معقولیت کی قیمت پر جو فتح حاصل ہوتی ہے وہ موہوم، پرفریب اور چند روزہ ہوتی ہے-

یہ ایک منطقی حقیقت ہے کہ انسانیت کا سفر ہمیشہ آگے کی طرف جاری رہتا ہے جسے کوئی غیر منطقی عمل روک نہیں سکتا - پاکستان کی ریاست بھی صرف اس صورت میں پھل پھول سکتی ہے کہ وہ عوام کی صلاحیتوں کو عقل و معقولیت کی بنیاد پر بحران سے باہر نکلنے کا موقع فراہم کرے- عقل و معقولیت کے دشمن عوام کو ریاکاری اور منافقت سے نجات پانے میں تاخیر کا سبب تو بن سکتے ہیں لیکن وہ ان ذی عقل اور ذی شعور انسانوں کی قسمت کو ان سے چھیننے میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہو سکتے  -


  ترجمہ . سیدہ صالحہ .

Read Comments