عورتوں کو علٰحدہ کھڑا کر دیا گیا۔ پہلے زیور گہنے اتار کر آپس میں بانٹے گئے پھر بلوائیوں نے اپنی اپنی پسند کی عورتیں آپس میں تقسیم کر لیں۔ اس تقسیم کے دوران لاجونتی کسی عبد الغنی کے حصے میں آئی جو ایک کوچوان تھا۔ وہ اسے اپنے گھر لے گیا اور اگلا ایک مہینہ لاجونتی نے جہنم میں گزارا۔
حملے کے وقت لاجونتی کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، جسے کسی نے کھینچ کر اس کی چھاتی سے الگ کیا۔ صبح ہوتے ہی جب عبدالغنی تانگہ جوت کر چلا جاتا تو وہ بستی کے تمام گھروں میں جاتی اور اپنے بیٹے کا پوچھتی۔ مگر جہاں زمین کی کوکھ اجڑ گئی وہاں لاجونتی کی ممتا کیسے بچتی۔ بیٹا تو نہیں ملا البتہ ہندو لڑکیاں ہر گھر میں نظر آئیں۔
تقریبا ایک ماہ بعد ڈھول کی تھاپ پہ اعلان ہوا کہ تمام عورتیں واپس ہونگی۔ مگر اس وقت تک ایسی افواہیں زور پکڑ چکی تھیں کہ مشرقی پنجاب میں قحط پڑ گیا ہے اور اب ان لڑکیوں کو کوئی نہیں رکھے گا کیونکہ یہ ناپاک ہو چکی تھیں۔ اس گومگو کی کیفیت میں کامونکی سے تقریبا ڈیڑھ سو خواتین کو گوجرانوالہ لے جایا گیا جن میں سے صرف بیس نے واپس جانے کی خواہش کی۔ باقیوں نے نئی زندگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ گوجرانوالہ سے لاجونتی کو لاہور لایا گیا جہاں اس نے بیان قلمبند کرواتے ہوئے بتایا کہ دنگوں میں اس کے تمام رشتہ دار مارے گئے ہیں۔
تاریخ چھانتے چھانتے نظر آسٹریلیا کے ایک اخبار پہ پڑی۔ چھبیس ستمبر کے اس اخبار کے مطابق ٹرین کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام امرتسر ریلوے اسٹیشن کے قریب ہوا جس میں لگ بھگ تین ہزار مسلمان مارے گئے۔ عورتوں کو بانٹ دیا گیا اور مردوں کو قتل کر دیا گیا۔ ٹرین میں موجود انگریز فوجی افسر نے ان نہتوں کی جانیں بچانے کی بہت کوشش کی مگر آ خرکار وہ افسر اپنے ہی جوانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
ایک طرف مسلم زمینداروں اور سکھ جاٹوں کی لازوال دوستیاں تھیں اور دوسری طرف وحشت اور ہوس سے سرشار دشمنیاں تھیں۔ میرے سامنے پاکستان سے ہندوستان جانے والوں کے روح فرسا بیانات تھے اور میرے ذہن میں ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کی دلخراش کہانیاں تھیں جن کے ساتھ میں بڑا ہوا تھا۔
مگر ان داستانوں میں کچھ باتیں اور بھی تھیں۔
کہیں فتح محمد نام کا کانسٹیبل تھا جو سولہ سال کی بلونت کور کو اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ بلونت کے ماں باپ بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گۓ تھے. اندر داخل ہوتے ہی اس نے قرآن ایک ہاتھ میں تھاما اور دوسرے سے بلونت کے سر پہ ہاتھ دھرا۔ اپنی بیوی بچیوں اور بوڑھی ماں کے سامنے اس نے بلونت کو بیٹی کہا اور پھر پورے گاؤں کی مخالفت کے باوجود اسے کئی ماہ اپنے گھر میں بیٹیوں کی طرح ہی رکھا۔ اس کے گھر والوں کو ڈھونڈا اور بالآخر اس کے بھائی کو لاہور بلا کر بلونت اس کے حوالے کی۔
مشرقی پنجاب کے پرانے بوسیدہ دفاتر میں ایسا ایک اور بیان بھی ہے۔ بھٹنڈہ کے نرائن سنگھ نے ایک مسلمان بچی کو پناہ دی، اپنی بچیوں کے ساتھ سکول داخل کروایا اور بعد میں بھاگ دوڑ کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے اس کے گھر والوں کو تلاش کرکے واہگہ پہ ان کے حوالے کیا۔ اپنی بیٹیوں ک ساتھ ساتھ نہریں نے اس کا جہیز بھی اکتها کیا تھا جو جاتے جاتے اسے دان کر دیا.
سمجھ نہیں آتا کہ تاریخ کی صحیح سمت کون کھڑا ہے؟ نعرے مارتے بلوائی یا گھر بچاتے ہمسائے، ظلم کا بدلہ لینے والے یا معاف کرنے والے؟ تاریخ ایک ایسا اندھا آیئنہ ہے جس میں اپنا آپ تو نظر آتا ہے مگر آر پار نہیں دکھتا۔
شام ہو رہی تھی اور شاہ عالمی جل رہا تھا۔ لینی بی بی نے معصوم پارسیوں کی سی سادگی سے پوچھا، "آیئس کینڈی والے، یہ کون لوگ ہیں اور ایک دوسرے کے گھر کیوں جلا رہے ہیں"۔ آئس کینڈی والا صبح صبح ایک اجڑے ہوئے قافلے کی روداد سن کر شام میں دو ہندوؤں کا قتل کر کے لوٹا تھا۔ سرخ آنکھوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا؛
"لینی بی بی، آزادی لیتے لیتے، انسان کے اندر کا جانور بھی آزاد ہو گیا ہے"