نقطہ نظر

تم نہیں یا ہم نہیں

گھڑی فیصلے کی ہے، دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں جنیوا کنویشن کی عیاشی برداشت نہیں کرسکتے۔

یہ آزاد خیالوں یا لبرلز کو جانچنے کا وقت ہے۔ فوجی مداخلت، آمریت اور شدت پسندی کی مخالفت کرنے والے یہ ہر مرتبہ مخمصوں کا شکار رہتے ہیں اوراب یہاں ظالموں یا جہادیوں پر مغرب نے ایک اور حملہ کردیا ہے۔

یہ اخلاقی مشکل اُس وقت شروع ہوئی جب شمالی مالی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے والے عسکریت پسندوں نے دارالحکومت بماکو کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ جس کے بعد فرانس نے بھاری ہتھیاروں سے لیس القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اُن عسکریت پسندوں پر حملہ شروع کردیا۔

بعض مسلمانوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اُن کے ہم عقیدہ لوگوں پر مغرب کا ایک اور حملہ ہے۔ حتیٰ کہ خود عقل و شعور والے مغربی مبصرین نے بھی امیناس گیس فیلڈ پر یرغمالیوں کو عسکریت پسندوں سے چھڑانے کے لیے اپنائے گئے مہلک طریقے پر سوالات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے سرزمین کی وسعت کی طرف اشارہ کیا، جس کے باعث دہشت گردوں کو مقامی آبادی میں گھل مُل جانے کی سہولت میسر ہے۔ اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ فرانس کا خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ فرانس کے نیٹو اتحادیوں نے اسے ایسا کوئی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اس معاملے میں تمام خفیہ معلومات اور لاجسٹک سپورٹ امریکا اور برطانیہ نے فراہم کی تھیں۔ اس مقصد کے لیے ایکوواز ممالک کے چند سو فوجی تیار بھی تھے لیکن مغربی افریقہ کے خطّے سے دستے فرنچ حملے کے بعد پہنچنا شروع ہوئے۔ اس حملے کے لیے اُن کی قیادت کئی ماہ سے پس و پیش کا شکار تھی۔

لیکن تمام تر غیر یقینی حالات اور طویل عرصے سے موثر فرنچ حملے پر پس و پیش، اس کا جواز تھا؟

الجیریا نے فوری طور پر امیناس حملے کی ذمہ داری کا الزام مالی پرعائد کیا۔ اگرچہ اس میں کچھ سچ بھی ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ گیس فیلڈ پر حملے کی منصوبہ بندی کئی ہفتوں کے غور و خوض کے بعد کی گئی تھی اور یہ اتنا سادہ اور سہل نہیں کہ اس مداخلت کی ذمہ داری کے لیے فوری طور پر مالی کی طرف انگلی اٹھادی جائے۔

اگر کسی شخص کے ذہن میں اس کارروائی کی ضرورت کے حوالے سے کسی قسم کے کوئی شک و شبہات موجود ہیں تو وہ اُن پناہ گزینوں پر سی این این کہ رپورٹ دیکھ لیں جنہیں اسلامی شدت پسندوں نے قید کررکھا تھا۔

اس پروگرام کے ایک حصے میں ایسے دو لوگوں سے کیمرہ کے سامنے بات کی گی، جن کے داہنے ہاتھ چوری کے جرم میں کاٹ دیے گئے تھے۔

ان دونوں پر نام نہاد مقدمہ تیزی سے (شرعی عدالت میں) چلایا گیا اور پھر انہیں گھیسٹتے ہوئے چوراہے پر لایا گیا، جہاں انہیں بے ہوش یا جسمانی اعضا سُن کردینے کی کوئی دوا دے بغیر، بازؤں میں جکڑ کر ان کے جسمانی اعضا کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔

جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، مالی کے ایسے بے سہارا اور غریب لوگوں کواپنا قیدی بنا کر، اُن پر اپنی مرضی تھوپ کر، اُن کی زندگیوں سے کھیلنے والے ظالموں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے یہی جواز کافی ہے۔

جب سے شمالی مالی پر ان ٹھگوں کا قبضہ ہوا تھا، تب سے وہ اسلامی شرعی قوانین کے نام پر وہاں کے لوگوں پر قہر ڈھا رہے تھے۔ عورتیں گھروں کی چاردیواری میں قید تھیں، مردوں کے ہاتھ کاٹے جارہے تھے، لوگوں کی پیٹھ پر کوڑے برس تھے۔

وہ قدیم اسلامی کُتب خانے اور مزارات، جنہیں عالمی ورثہ قرار دیا گیا اور جو علم و دانش کے گہوارے تھے، انہیں ان ظالموں نے بدعت قرار دے کر ملیا میٹ کردیا۔

آہستہ آہستہ ان کے مظالم کے خلاف اتفاقِ رائے پیدا ہوتا چلا گیا اور پھر شہریوں کی حفاظت کے لیے گذشتہ برس احساس ذمہ داری کو کئی مواقعوں پر جانچا گیا۔

لیبیا سے شام ہو یا پھر اب مالی، زیادہ تر مغربی حکومتوں نے ہی معصوم لوگوں کو ظالموں اور مطلق العنان قبضہ گیروں سے رہائی دلانے کے لیے مداخلتی کارروائیاں کی ہیں۔

جہاں تک بعض مسلمانوں کا تعلق ہے تو اُن کے ذہنوں میں یہ مداخلتی کارروائیاں اسلام کے خلاف ایک تحریک کا حصہ ہیں، جیسا کہ افغانستان، عراق میں ہوا یا پھر پاکستان، صومالیہ اور یمن میں ہورہا ہے۔

یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اس طرح کی مداخلتوں کے بُرے اثرات بھی برآمد ہوئے، جس کے نتیجے میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی بڑھی ہے۔

لیکن اب ذرا یہ دیکھیں کہ عراق پر حملے کا جو مقصد تھا اگر اس کے تحت ایسا نہ کیا جاتا تو پھر اس کا متبادل کیا ہوسکتا تھا؟

کیا ظالم حکمرانوں کو چھوٹ دے دی جاتی کہ وہ اپنے معصوم شہریوں پر جس طرح چاہیں، ظلم ڈھاتے پھریں اور جس ملک پر چاہیں، جنگ تھوپ دیں؟

اگر قاتلوں کا کوئی گروہ جنم لے کر ہماری سرزمین کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگے تو کیا اس کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے؟

اگر ایسوں کے خلاف ریاست کچھ نہیں کر پاتی اور پھر یہ عناصر اپنی حدود سے باہر نکل کر دوسروں کو اپنا نشانہ بنانا شروع کردیں تووہ جو ان کا ہدف بن رہے ہیں، انہیں اپنے بچاؤ اور دشمن کےحملے کاجواب دینے کے لیے کوئی حق حاصل نہیں؟

پاکستان اور اس سے باہر بھی انسانی حقوق کی متعدد تنظمیں ڈرون حملوں کے خلاف سخت تنقید کرتی ہیں، جن کی لپیٹ میں ہدف کے علاوہ اکثر شہری بھی ہلاکت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

تو کیا لوگ اُن دہشت گردوں کو بھول جائیں جو جان بوجھ کر شہریوں کی آڑ میں پناہ لیتے ہیں اور اکثر ٹھکانے حاصل کرنے کے لیے ان شہریوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات تو لالچی لینڈ لارڈ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا معاوضہ تک وصول کرتے ہیں۔

مالی ہو یا پاکستان، ان دہشت گردوں نے اختیارات چھینے کے لیے ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ریاست اور عسکریت پسندوں کے خلاف اس جنگ میں، ایک دوسرے پر ہونے والے حملوں کی لپیٹ میں آ کر اکثر شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔

لیکن ہمیں تعداد سے نکل کر آگے کی طرف دیکھنا اور سوچنا ہوگا۔ ہمیں اس سے گے کی بات یاد کرنا ہوگی۔ ہمیں یاد کرنا ہوگا کہ جتنے معصوم شہری ڈرون حملوں کی زد میں آکر حادثاتی طور پر مارے جاتے ہیں اس سے کہیں بہت بڑی تعداد میں فوجیوں، پولیس والوں اور عام شہریوں کو، دہشت گرد سوچ سمجھ کر کیے گئے حملوں اور بم دھماکوں میں ہلاک کردیتے ہیں۔

ان جہادی عسکریت پسندوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کے سر قلم کیے، ان کے اعضا کاٹے اور ان کے حملوں میں ان گنت شہری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوئے۔

یقیناً ہم مجرمانہ کارروائیاں کرنے والوں اور قانونی طور پرتشکیل کردہ ایسی حکومتوں کو برابر کا درجہ نہیں دے سکتے، جنہوں نے لوگوں کے تحفظ، داخلی خود مختاری اور جنگ کے اصولوں پر، عالمی معاہدات پر دستخط کررکھے ہوں۔

ایک مثالی دنیا میں کسی بھی دہشت گرد کارروائی کو حکومت کی کسی ایسی کارروائی سے منسلک کرکے جائز قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ریاست کا قدم شہریوں کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے اور دہشت گردی مذموم مقاصد کے تحت کی جاتی ہے۔

ہم ایک پُرتشدد دنیا میں رہ رہے ہیں، جہاں ریاست پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔

جب دشمن انسانی زندگی، انسانیت اور عالمی طور پر تسلیم شدہ معیارِ انصاف کے خلاف لڑ رہا ہو تو کیا ریاست اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جنیوا کنویشن پر عمل کی عیاشی برداشت کرسکتی ہے؟

یہاں اس اخلاقی کشمکش کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔ اب تک پاکستان میں ایسے متعدد عسکریت پسند گروہ موجود ہیں جنہیں کہیں حکومت اور کہیں معاشرے کی حمایت حاصل رہی ہے، جس سے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

اس جانب عدلیہ بھی خوف زدہ اور غیر موثر ہے۔ نیز ان گروہوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے فوج ہو یا حکومت، دونوں کو اب تک ایک اتفاقِ رائے کی تلاش ہے۔ ایسے میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پھیلاؤ، کسی کے لیے بھی حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔

علاوہ ازیں، دوسری ریاستوں کو اس طرح کے دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی کے لیے، چاہے وہ ان کے درمیان ہو یا پھر باہر، ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے مضمرات میں انسانی حقوق کا سوال اٹھ سکتا ہے: ہم نے متعدد ایسے قوانین بنائے اور نافذ کیے، جن کا مقصد شہریوں اور ان کے حقوق کا تحفظ ہے اور جو ایکشن ہے وہ اُن جہادی دہشت گردوں کے خلاف، جن سے خود شہریوں کی جانوں کو خطرات درپیش ہیں۔

ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ جب ایک خطرناک اور قوت کے نشے میں چُور بے لگام دشمن سے مقابلہ ہو تو اس وقت معمول کے رسمی آداب کی پابندی نہیں کی جاسکتی۔ مشکل وقت مشکل فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم دو راستے اختیار نہیں کرسکتے: ایسا دشمن جو ہاتھ، پاؤں اور سر کاٹنے سے آگے کا سوچ ہی نہیں سکتا، اس کا مقابلہ ہم معمول کے قوانین اور جنگی طریقوں سے نہیں کرسکتے۔

اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ یا تو تم نہیں یا پھر ہم نہیں۔


ترجمہ: مختار آزاد

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔