اب اس دور کی کچھ تصویریں باقی ہیں اور کچھ نین نقش وقت نے چاٹ لئے ہیں۔ انگریز راج آیا تو لارنس صاحب بہادر نے رانی جنداں کو اسی قلعے میں قید کروا دیا۔ بھیرووال کے معاہدے کے تحت ملنے والی تمام مراعات واپس ہو گئیں۔ اسی قلعے سے رانی نے لارنس کو ایک خط لکھا جو ابھی بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ بد سلوکی حد سے بڑھ گئی تو افغانستان کے امیر نے تاج برطانیہ کو چٹھی لکھ بھیجی کہ دنیا کے اس حصے میں ہم عورتوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے اور جنداں تو پھر ایک رانی ہے، مگر طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔
شہر کے بازار بھی مغل بادشاہوں کے نام پہ ہیں۔ اندرون ایک پرانا شہر ہے اور شاہدرہ کی مانند زندگی وہاں بھی ایک دوسرے سے ریشم کے تاگوں جیسی الجھی ہے۔ آبادی کی کثرت زراعت پیشہ ہے سو پہلے پہل یہاں کھیت اور کھیت سے متعلق چیزوں کا بیوپار ہوا کرتا تھا۔ اب لاہور سے قربت کے باعث، شہر کی داخلی اور خارجی دونوں سڑکوں پہ ڈھیروں ڈھیر کارخانے لگے ہیں۔ شہر کے دائیں اور بائیں دو روایتیں سانس لیتی ہیں۔
پہلی روائت کا نام شرق پور ہے جسے شرق پور شریف بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے، کہ بار کے باقی علاقوں کی طرح یہاں بھی خود رو گھاس کی بہتات تھی۔ گھنا جنگل ہونے کے سبب یہ جگہ چوروں ڈاکوؤں کے چھپنے کے لئے خاصی موزوں تھی۔ سرقہ سے بگڑتے بگڑتے اس کا نام سرق پور پڑ گیا اور پھر اسے شرق پور کہا جانے لگا۔
بڑے بوڑھے شرق پور نام کی ایک اور کہانی بھی سناتے ہیں۔ شہر چورستہ پہ آ باد تھا اور یہاں سے مختلف سڑکیں نکلا کرتی تھیں۔ ایک سڑک خود پور کو جاتی اور ایک لاہور کو، ایک اور سڑک بہنی کو جاتی اور ایک شیخوپورہ کو۔ ان سڑکوں کی بدولت، اس جگہ کا نام سڑک پور پڑ گیا، جو بگڑتے بگڑتے شرق پور بن گیا۔
نام رکھا گیا تو شہر اپنی فطرت کو لوٹا۔ ایک مشہور صوفی بزرگ نے یہاں ڈیرہ ڈالا اور ان کے عقیدتمندوں نے اس کا نام شرق پور شریف کر دیا۔ صوفی کی ایک کہانی ایک رند سے بھی منسوب ہے۔ کہتے ہیں اقبال نے جب اس صوفی کا تعارف سنا تو ملنے کا ارادہ کیا۔ ایک مرید اقبال کو صوفی صاحب کے پاس لے تو گئے مگر اندر جانے سے گریزاں رہے۔ نیاز مند کا خیال تھا کہ اقبال ملائیت کے خلاف ہیں اور فنون لطیفہ کے آدمی ہیں۔ ایک صاحب دل کو صاحب نظر سے کیا گزر۔ سو انہوں نے اقبال کو بیٹھک میں بٹھایا اور خود اندر چلے گئے۔ کچھ دیر گزری تو اقبال نے ایک کاغذ کا ٹکڑا اندر بھجوایا، جس پہ رقم تھا "گناہ سے نفرت جائز ہے، گناہ گار سے نہیں"۔ آج درگاہ کے لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ اقبال بھی یہیں کے بیعت تھے۔
شہر کی خاص سوغات گلاب جامن ہیں، جنہیں چھوٹے چھوٹے سکوروں میں پیش کیا جاتا ہے۔ شاہجہاں نے اپنے دور میں خوش ہو کر یہاں پانچ نوبتیں بھجوائیں تھیں۔ ان نوبتوں پہ شاہی فرمان اور شاہجہانی مہر کندہ تھی۔ چار نوبتیں تو نذرانوں میں چلی گئیں، ایک نوبت البتہ اب بھی باقی ہے جسے سحر اور افطار میں بجایا جاتا ہے۔ نوبت پہ کندہ بادشاہ کی مہر اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
گئے سالوں کی بات ہے، اگر رات میں کہانی کے بعد بھی بچہ نہ سوتا تو دادی اسے ایک کلام سناتی۔ دن میں اس کلام سے مستعار محاورے گھر میں چلتے۔ اس کلام اور ان محاوروں کا مخزن ایک کتاب تھی ۔ دادی کو پوری بات تو یاد نہ تھی البتہ اتنا بتاتی کہ انگریز کی کچہری میں کسی نے اس کتاب پہ قسم کھائی تھی۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ جب مائیکل ڈائر کے قاتل کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے اس کا نام پوچھا، ادھم سنگھ نے نام بتایا، "رام محمد سنگھ آزاد"، پوچھا گیا کہ کس چیز پہ حلف اٹھاؤ گے بولا، "اس کتاب پہ جو پورے پنجاب میں پڑھی اور مانی جاتی ہے"، یوں پہلی بار کسی نے ہیر پہ حلف اٹھایا تھا ۔ تقدس کی اس دوسری روائت کا نام وارث شاہ ہے اور ماں بولی کا یہ شیکسپیر، شیخوپورہ کے دوسری طرف، جنڈیالہ شیر خان میں ابدی نیند سوتا ہے۔
ہیر کی کہانی یوں تو بہت سے لوگوں نے بہت سے انداز میں لکھی ہے جن میں دامودر اروڑا، احمد گجر بھی ہیں اور مقبل کا نام بھی لیا جاتا ہے مگر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ہیر وارث شاہ سے ہی منسوب ہے۔ ہیر کی کہانی زندگی کا فلسفہ ہے۔ یہ محبت کی وہ خوبصورت داستان ہے جسے وارث شاہ کے قلم نے امر کر دیا ہے۔
ہیر ایک کتاب نہیں بلکہ ایک زندگی نامہ ہے۔ یہ پنجاب کی سب سے خوبصورت تصویر ہے جس میں یہاں کے رسوم و رواج سے صبح شام کے منظر، موسمی پھلوں سے انسان کی فطرت اور زندگی کی حقیقتوں سے موت کی رموز تک سب کچھ درج ہے۔ مگر اس قصے کی بھی ایک اپنی ہی کہانی ہے۔
کہتے ہیں جنڈیالہ سے جب وارث شاہ قصور پہنچے تو وہاں کسی بھاگ بھری کی محبت میں سرشار ہو کر یہ قصہ تحریر کیا۔ رانجھے کی پریت حقیقت میں وارث شاہ کی اپنی وابستگی ہے اور ہیر کا بیان اصل میں بھاگ بھری کی آرتی ہے۔ دادی کی آنکھ کھلی تو بچہ ابھی سویا نہیں تھا۔ دادی نے پوچھا کہ سوتا کیوں نہیں، بچے نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہونا چاہتا ہوں۔ دادی نے تھپکی دی اور کہا اچھا اب تو رات ہو گئی ہے ، سویرے ہو جانا اور دوبارہ مجھے ہیر کی لوریاں سنانا شروع کر دیں۔
وارث شاہ میاں گنا چوپ سارا ۔۔۔۔
مزے وکھ نے پوریاں پوریاں دے
شہر تو کافی پرانا ہے مگر اب یہاں نئے لوگ آ گئے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کھنڈپوریوں کی ایک بڑی تعداد پرانے محلوں میں بستی تھی۔ سینتالیس میں اتنا خون بہا کہ اخباروں میں شیخوپورہ کی سرخی لگ گئی، اچھی بات مگر یہ ہے کہ آج کے شہر میں یہ سب کسی کو یاد بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے جن کا خون بہا ہو انہیں یاد ہو۔ پرانی باتوں میں سے ایک محلہ کھنڈ پوریوں کے نام سے منسوب ہے اور جناح پارک کے گردا گرد کچھ گھر بچے ہیں۔ شیخوپورہ کی ایک اپنی پہچان ہے مگر بڑے شہروں کے قدموں میں آباد چھوٹے شہر تمام تر تاریخ اور ثقافت کے باوجود اپنی علیٰحدہ شناخت نہیں رکھتے۔ شیخوپورہ کا ہر تعارف اسی جملے سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور شہر سے تقریبا تیس میل کے فاصلے پہ۔۔۔۔
is blog ko Hassan Miraj ki awaz mein sunne ke liye 'Play' button click karen
[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/78767318" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]