نقطہ نظر

سینئر' صحافی'

ہم شخصیت نگاری یا شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں یا پھر ہمارا ملک ہے جو اس جال میں پھنسا ہوا ہے

پتہ نہیں کب اور کہاں سے ہمارے دماغ میں یہ بات سما گئی کہ ہم میں لکھنے کے جراثیم ، جرثومے بلکہ کیڑے موجود ہیں، اسکے بعد پہلا خیال جو ہمارے ذہن میں آیا کہ اسکا علاج ضروری ہے، ورنہ یہ حشرات اور پتہ نہیں کیا کیا ہمیں کوئی بڑا کالم کار، کہانی نویس نہ سمجھنے پر مجبور کر دیں۔

علاج کی غرض سے ہم نے سو چا کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چا ئیے اور انہی ڈاکٹروں کے کھوج میں اور پیچھا کرتے ہوئے ہم قلم اور صفحہ لے کر بیٹھ گئے کیونکہ جتنے ’اچھے‘ ڈاکٹروں کو ہم جانتے تھے وہ سب کے سب میڈ یا میں تھے۔

مارننگ شو، مذہبی پروگرام ، حالات حاضرہ کے پروگرام سب کے سب ’اچھے‘ ڈاکٹر ہی کررہے تھے۔ بس اتنا سمجھ نہیں آیا کہ وہ ڈاکٹر ہیں تو ٹی-وی پر کیوں اور ٹی-وی پر ہیں تب بھی ڈاکٹر ہونے پر اتنا زور کیوں؟

اب لکھنے کیلئے جب قلم اُٹھا ہی لیا تو سوچ میں پڑ گیا کہ لکھوں تو کس زباں میں، ادھراُدھر نظر دوڑائی جتنی مشہور شخصیات نظر آئیں وہ سب انگریزی میں لکھنے والے تھے چاہے وہ صحافی ہوں، ادیب ہوں، دانشورہوں یا ہمارے میڈیا کے بنائے ہوئے کسی امور کے ماہر۔ اب کیونکہ ہم انگریزی میں لکھتے تو انگریزوں کو ہم سے خدا واسطے کا بیر ہو جانا تھا اسلئے ہم نے ا پنی بلکہ ’کمپنی کی مشہوری‘ کو قربان کرتے ہوئے اردو میں لکھنے کا ارادہ کیا۔

زبان کا انتخاب کرتے وقت یہ بھی پریشانی تھی کہ سندھی ہونے کی وجہ سے اگر سندھی نہ آئے تو خاندان والوں ، دوستوں ساتھیوں کے اتنے طعنے سننے کو ملیں گے کہ الامان الحفیظ۔۔ کراچی میں رہتے ہوئے اگرصاف اردو نہ بولیں تو فوراً کراچی کے دوست ہم سے پوچھتے ہیں ’سائیں سندھ سے آئے ہیں‘ یا سندھ میں آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے۔ جب یہ دو ہی سمجھ نہیں آئیں کہ کرنا کیا ہے تو انگریزی تو رہی فرنگیوں کی زبان۔ اس میں لکھنے سے ہماری تہذیب، مذہبی نظریات، تمدن اور معاشرے کو جتنا خطرہ ہو جاتا اُسکے لئے ہم ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے، تو لے دے کے لکھنے کیلئے اردو کا انتخاب کیا۔ اب گھر میں سندھی، باہر اردو اور نوکری کیلئے "Excellent English Skills" کوکچھ دیر کیلئے ہم نے اپنی ذات تک محدود کر کے لکھنا شروع کر دیا۔

تیسرا مرحلہ یہ آیا کہ ہم صحافی بنیں یا کالم کار یا کہانی کار۔ ذرا غور سے دیکھا --کیونکہ لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری نہیں-- تو پتا چلا یہ سب ایک ہی شخص کے مختلف نام ہیں صحافی کالم لکھتا نظرآتا ہے، کالم کار کہانیاں اور کہانی نویس ہمارے اخباروں میں بڑے کروفر سے پاکستان کے مختلف معاشی، مذہبی اور معاشرتی مسائل کا حل تجویز کرتے ہو ئے نظرآتا ہے۔ لہذا اس الجھن میں مزید نہ پڑنے کا سوچتے ہوئے ہم نے سوچ لیا کہ اگر صحافی بنیں تب بھی کہانی سنانی ہے اور اگر کہانی نویس ہوئے تو تب بھی صحافت کرنی تو اسلئے ایسا لکھوں کہ ہر زاوئے سے فٹ آجائے یہی وجہ تھی ہم نے صحافت کے میدان میں طبع آزمائی شروع کرنے کی ٹھانی۔

ہماری صحافت کی طرف آنے کی ایک اور وجہ جو تھی وہ ہمارا مختلف ایشوز پر کوئی ایک بھی کتاب نہ پڑھنے کی عادت تھی۔ اگر انسان میں یہ عادت مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہو تو صحافت ہی بہترین پیشہ بن جاتی ہے، جو چاہے، جب چاہے، جس پر چاہے لکھو۔ کھیل کے میدان سے لے کر مذہبی طورپر منائے جانے والی رسومات پر، پاکستان میں گرتے ہوئے اسٹیج کے میعار سے لے کر پاکستان میں بڑھتے ہوئے جعلی حکیموں، عاملوں اور انکے حل تک سب پر اور ’سب کو‘ لکھنا آپ کیلئے بلکل جائز ہے۔

صحافت کیلئے کردار نگاری، خاکہ کشی انتہائی ضروری ہے جب تک اس پہ کماحقہ حاصل نہیں ہوتا صحافت کے میدان میں ’کنٹریکٹ ایمپلائی‘ ہی رہے جائیں گے۔ اسلئے خودنوشت سے بڑھ کر ’اُن نوشت‘ پہ دھیان دینا پڑے گا۔ چلیں تو یہ مرحلہ بھی اﷲ اﷲ کر کے بخوبی نمٹا اور ہم نے چند صفحات لکھتے ہی اپنے آپ کو صحافی سمجھنا، جاننا اور ماننا شروع کر دیا۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئی بات اور آگے بڑھی اور ہم نے اپنے تعارف میں بھی سب کو صحافی بتانا شروع کر دیا اور یہ سنتے ہی لوگوں کی آنکھوں میں جو ہمارے لئے چمک نظرآئی تو ہم نے تہہ کر لیا کہ بس جلد ہی یہ ایک مضمون چھپ جائے تو اپنے صحافتی تعارف میں ’سینئر‘ کا اضافہ بھی کر لیں گے۔

اب اردو لکھنے اور خود ساختہ صحافی بننے کے بعد سوچا کہ ہم لکھیں کس طرف ’دائیں طرف‘ یا ’بائیں طرف‘ جیسے انگریزی میں لیفٹسٹ اور رائٹسٹ کہتے ہیں۔ ایک بار پھر آنکھیں بند کیں، ڈبے جیسے دماغ میں پاکستان کے چند بڑے صحافیوں، دنشواروں کے نام سوچے، جو نام ذہین میں آئے وہ اگر رائٹسٹ تھے تو بے حد رائٹسٹ نظرآئے اور جو لیفٹسٹ تھے وہ اپنے لیفٹ کی جانب رہنے سے بھی زیادہ رائٹسٹ نظر آئے۔ لہذا ہم نے سوچا سب کا تھوڑا تھوڑا حصہ لے لیں اور بس شروع ہو جائیں، رائٹ سے لکھتے ہوئے لیفٹ کی طرف جائیں گے اور لیفٹ سے شروع ہو کر رائٹ پر ختم کردیں گے اور ایسالکھنے میں مارجن بھی رہے گا۔

دوسرا ٹی-وی والوں کیلئے ہم ہر موقعے پر انتہائی مناسب ’تجزیہ نگار‘بن کر سامنے آسکیں گے۔ ایک فائدہ جو اس ملے جلے ردعمل سے ہو گا کہ ہم موقع مناسبت سے مختلف ملکوں کے مفت چکر لگانے کے بھی فوری امیدوار رہیں گے جو ان دونوں کیٹگیریز میں آتے ہیں۔

چلیں جی، لکھنے کا سوچا، لکھ بیٹھے، زبان کا انتخاب مشکل ضرور تھا پر قرعہ فال ’اردو‘ کے نام نکل آیا، بنیں گے کیا بھی طے ہو گیا کہ صحافی بنا جائے اور اگریہ مضمون کہیں چھپ گیا تو فوراً ’سینئر‘ کا تعاروفی کارڈ بھی چھپوالیں گے۔ چوتھا مرحلہ بھی باخوبی طے پایا کہ ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر رہیں گے ہمارا جھکاؤ ہوا کے دوش پر دائیں اور بائیں دونوں طرف رہے گا اﷲاﷲ خیر سلا۔

پانچواں مرحلہ یہ آیا کہ لکھ کر پرنٹ میڈیا میں بھیجیں یا الیکٹرونک میں، دماغ نے فوراً آواز لگائی کہ تم نئے دور کے ابھرتے ہوئے صحافی ہو تمھارا پرنٹ میڈیا سے کیا کام۔ اُس میں محنت بھی ہے پکڑائی بھی اور مشہوری کیلئے بڑا وقت درکار ہوگا۔ لہذا اردو میں چلنے والی ویب سائٹس کی تلاش کرو۔ اب ہم کیونکہ بڑے ہائی سٹینڈرڈ کے صحافی ہیں تو کسی انٹرنیشنل معیار کی ویب سائٹس کی تلاش کرنا ضروری تھی۔

آخر سوچا اتنے ابھرتے ہوئے اور صحافتی میدان میں روشن ستارے کو ملک کے سب سے نامورصحافتی ادارے کا انتخاب کرنا چائیے۔ کیونکہ اس ہی میں ہی ہماری اور نامور ادارے کی بقا ہے۔ اب اتنے ابھرتے ٹیلنٹ سے منہ تو نہیں موڑسکتے ہیں وہ لوگ بھی۔

اسکے بعد ہم نے یہ بھی سوچ لیا کہ ہمارا یہ بلاگ اگر چھپنے کیلئے منظور نہیں ہوا تو ہم فوراً یہ دعوی کردیں گے کہ ملک میں کوئی کام رشوت اور سفارش کے بنا ہوتا ہی نہیں اور خاص طور پر ’اس حکومت‘ میں۔ اور یہ دعوی بھی نہیں چلا تو بہت اہم تُرپ کا پتا تو ہے ہی ہمارے پاس کہ چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو احساس محرومی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ ہمارے جائز کام بھی بڑے بھائی نہیں کرنے دیتے۔ اسلئے ہمیں آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے اور ہماری آواز کو دبانے کیلئے ہمارا یہ بلاگ چھپا نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہمارے سارے دوست احباب فوراً ہمارا بلاگ پڑھے بنا اس ’سینئر صحافی‘ کی بات کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے ہماری عظمت کے فوراً ہی مترادف ہوجائیں گے۔

پتہ نہیں کیوں یہاں آکر ہم لکھتے لکھتے رُک سے گئے، یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہم اپنے بارے میں ہی لکھ رہے ہیں نا؟؟ یا کہیں غیر دانستہ طور پر ’پاکستان‘ پر لکھ بیٹھے، اب تک اسی الجھن میں ہم ہیں کہ یہ ملک جوہمارا ہے اسکی قومی زبان کونسی ہے۔ وہ جو پاکستان میں بسنے والی مختلف قوموں کی یا وہ جو ’قومی‘ ہے۔ ہم دائیں طرف سے بائیں طرف جارہے ہیں یا بائیں سے دائیں طرف آگئے ہیں۔

ہم شخصیت نگاری یا شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں یا پھر ہمارا ملک ہے جو اس جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ہم لکھنے کی پہلی کوشش کررہے ہیں ان سوالوں کا جواب چونسٹھ برس میں نہ مل سکا تو ہمارے اس ایک مضمون میں کہاں ملنا ہے ۔ لہذا ہم بھی بس ’سب چلتاہے‘ کہ ساتھ اس کو بھی چلانے کی کوشش کرتے ہیں بغیر کسی سمت کے۔

ملک بھی تو چل ہی رہا ہے بغیر کسی سمت کے۔


لکھاری ایک مزدور ہیں

نوید جتوئی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔