شرم، حیا اور محبت
فروری کا مہینہ طلوع ہوتا ہے تو موسمِ سرما اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور چند روز کے لیے بہار اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ ایسے میں یار لوگ اگر محبت کا دن منانا چاہتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟
گزشتہ کئی سال سے 14 فروری کو محبت کا دن منانے والوں کے خلاف ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ یہ شور و غوغا کرنے والے حضرات اور خواتین خود کو چادر اور چار دیواری کے ٹھیکے دار گردانتے ہیں۔ اس دفعہ بھی ہر دوسری شاہراہ پر بینر اور بل بورڈ آویزاں ہیں جو ویلنٹائن کے خلاف فتاوی سے مزین ہیں۔
پاکستان بڑا دلچسپ ملک ہے۔ یہاں آپ کو ہر چیز کے ٹھیکے دار مل جائیں گے، خصوصاَ ملک میں سب سے سستی اور منافع بخش اشیاء مثلاَ مذہب اور شدت پسندی کے۔
14 فروری کے خلاف ’تحریک‘ کے سرخیل، مولوی اسرار احمد کی ’تنظیم‘ اور خواتین کو ازسرِ نو مسلمان بنانے کے ذمہ دار ’الہدی/النور‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔
تنظیم کے جاری کردہ پمفلٹ کا عنوان ہے ’ویلنٹائن، ایک مشرکانہ اور کافرانہ رسم‘ اور اس میں کہا گیا ہے کہ یہ رسم ہماری بے حسی، بے غیرتی اور دین سے دوری کا مظہر ہے۔ مزید برآں ویلنٹائن کی تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کو ’عیسائیوں‘ کا تہوار بتایا گیا ہے (جو کہ تاریخی طور پر درست نہیں)۔
اسرار احمد صاحب ساری عمر خلافت کے از سر نو اجرا کا درس دیتے رہے۔ مرحوم اسرار احمد طب اور تفسیر کا علم تو ضرور رکھتے تھے لیکن تاریخ کا علم نہ جانے انہوں نے کس درس گاہ سے حاصل کیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اپنے مرشد مودودی صاحب سے یہ علم انہیں نہیں ملا۔
منصورہ والوں کی حالت تو یہ ہے کہ ہمارے ایک استاد محترم تاریخ کی کوئی کتاب ڈھونڈتے ڈھونڈتے منصورہ جا پہنچے جہاں انہیں صاف جواب دے دیا گیا کہ میاں فقہ یا حدیث پر کوئی کتاب چاہیے تو حاضر ہے، یہ تاریخ واریخ کی کتب کا یہاں کوئی کام نہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز جو کہ جماعت کا اپنا قائم کردہ ادارہ ہے، سیرت، تفسیر، حدیث، عبادات، اصول و احکام دین اور قانون فقہ پر تو کتابیں چھاپتا ہے، تاریخ یا فلسفہ پر کوئی کتاب ان کے ہاں میسر نہیں۔
اسی طرح مکتبہ خدام القرآن تنظیم کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور ان کے ہاں بھی اسرار احمد صاحب کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں۔
قارئین کی سہولت کے لیے عرض ہے کہ جس خلافت کے خواب مودودی اور اسرار احمد دکھاتے رہے، وہ خلافت کی وہ شبیہہ تھی جو تاریخی طور پر کبھی بھی عملی شکل میں سامنے نہیں آئی۔ (اس موضوع پر تفصیلی بحث ملاحظہ کیجیے حسن جعفر صاحب کے مضمون ’ہماری تاریخ فہمی‘ میں)۔
اسرار احمد صاحب نے ضیا کے دور میں پی ٹی وی پر درس قرآن کے باعث شہرت حاصل کی لیکن کچھ دیر بعد خواتین کے پردے کے مسئلے پر بضد رہنے کے باعث انہیں نکال دیا گیا۔
اس مسئلے پر الہدی اور النور والے بھی تنظیم کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام خواتین وحضرات سورہ الاحزاب میں دیے گئے احکام کو سورہ النور میں دیے گئے احکام پر برتر سمجھتے ہیں اور چہرے کے پردے پر سختی کے حامی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ چہرے کا پردہ ایران کی فتح کے بعد فیشن کے طور پر اختیار کیا گیا تھا اور اب اس کے حق میں ہر طرح کے دلائل بنائے جا چکے ہیں۔
بات شرم وحیا سے شروع ہوئی تھی اور پردے تک آن پہنچی ہے۔ شرم اور حیا کا تعلق آنکھ اور دماغ سے ہے، پردے یا بے پردگی سے نہیں۔ شرم اور حیا سماجی معاملہ ہے، مذہبی جماعتوں کا اس مسئلے سے اصولاَ تو واسطہ ہونا ہی نہیں چاہیے۔
ایک بالغ انسان اپنی رضا کے ساتھ اگر کسی دوسرے بالغ انسان سے بات کرتا ہے تو اخلاقیات کے ان ٹھیکے داروں کو آخر کیا تکلیف ہے؟
کیا ویلنٹائن نہ منانے سے معاشرے کی تمام بیماریوں کا علاج ہوجائے گا؟ کیا سرخ رنگ اور دیگر ’قباحتوں‘ سے چھٹکارہ پا کر ہم صراط مستقیم پر چلنا شروع ہو جائیں گے؟ اگر ’محبت کے اظہار لیے کسی ایک دن کو مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں‘ تو شرم اور حیا کے لیے دن مختص کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
کیا یہ بھی ایک بدعت نہیں؟
اس اعتراض پر کہ یہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں، ہمیں سخت اعتراض ہے۔ میرا کلچر عربی لباس پہن کر حلق سے ’ع‘ نکالنا نہیں، میرا کلچر تو پنجاب کا کلچر ہے، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور سسی پنوں کی روایات میرے خون میں شامل ہیں۔
میں بلھے شاہ کا، وارث شاہ کا، میاں میر کا وارث ہوں۔ میرا کلچر محبت اور مل بیٹھ کر کھانے کا کلچر ہے، نفرت اور بدگمانی کا نہیں۔ مذہب کے نام پر اپنی دکان چمکانے والوں سے میرے کلچر کا کوئی تعلق نہیں۔
اس سال ویلنٹائن کے خلاف تماشے میں ایک اور فریق نے کرتب دکھایا۔ کراچی کے چند نوجوانوں نے تنظیم کے ایک پوسٹر کے سامنے چند محبت آمیز تصویریں سمیت تصویر کیا اتروالیں، ایک کہرام ہی ٹوٹ پڑا!
مشرف کے چند لے پالکوں اور ان نوجوانوں نے، جو بقولِ مُرشد ’فیس بک پر اللہ کے نام کی شکل والی روٹی یا پتھر پوسٹ کر کے اسلام کے فرائض پورے کرتے ہیں‘، کفر اور توہین کے فتوے جاری کر دیے۔ یہ سوچے بغیر کے آج کے دور میں سوشل میڈیا کتنا طاقت ور ہو چکا ہے اور ایسی رذیل حرکت سے کسی کی جان کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے.
اقبال اور زید حامد کے ان ممولوں نے اپنی کم عقلی اور کم ظرفی کا مظاہرہ دو دن تک جاری رکھا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ اس ملک میں توہین کا الزام لگانا بہت سہل ہے اور اس کا سامنا کرنا بہت مشکل۔ ایسی نوجوان نسل کی موجودگی میں پاکستان کا ’خدا ہی حافظ‘ ہے۔
(چند احباب کے مطابق تو خدا حافظ کہنا بھی جملہ معترضہ ہے)
اور تو اور پیمرا نے بھی اعلامیہ جاری کیا کہ ویلنٹائن سے متعلق کوئی پروگرام نشر نہ کیا جائے۔
یہ توجیح میری ناقص عقل کو تو سمجھ نہیں آتی کہ ’فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں‘ کے معصوم پیغام سے اسلام اور قرآن کی توہین کس طرح ہو گئی؟
بحرحال اس نظریے پر میں ان بلونگڑوں کا ہم خیال ہوں کہ اس ملک میں اب نہ تو محبت کی گنجائش رہی ہے اور نہ ہی ہمیں ایسی خرافات کی کوئی ضرورت ہے۔
یہ ملک اب تنظیم، جماعت اور برگر بچوں کی لیبارٹری ہے، اور یہی تو مودودی صاحب کا خواب تھا۔ خدا مجھے اور آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
