ہزارہ کمیونٹی کے خلاف حالیہ بدترین دہشت گرد کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے والی کمسن بچی نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، جس پر تحریر تھا: 'کیا اگلا نشانہ میں ہوں؟'
یہ ہم سب کی بے بسی کا نوحہ ہے کہ پورے پاکستان میں صدر سے لے کر عام آدمی تک، کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو اس کی زندگی کی ضمانت دے سکے۔
نہایت ہی افسوسناک، جب تک ہم ایک کم تششدد اور بہت زیادہ برداشت والی سوسائٹی نہیں بنتے تک اس بچی کی زندگی مسلسل دہشت گردی کے خطرے اور خوف کے سائے تلے گزرے گی۔
عالمی برادری ہزارہ کی جانوں کو لاحق خطرات کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ آگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ بدترین دہشت گرد حملے کے اگلے ہی روز آسٹریلیا کی حکومت نے پچیس سو ہزارہ خاندانوں کو پناہ کی پیشکش کی تھی۔
ایک دو نہیں ہزاروں ہزارہ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے نارمل معاشرے اور پناہ کی تلاش میں قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
کئی روز کے ملک گیر دھرنوں کے بعد حالات معمول کی طرف لوٹ چکے اور ہزارہ نے ایک بار پھر اپنے پیاروں کے درجنوں لاشے زمین کے حوالے کردیے۔
لیکن جیسا کہ معمول کا طریقہ رہا ہے، اور اسے بہت اچھی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ از خود نوٹس، کابینہ کمیٹیاں، پولیس سربراہ کا تبادلہ نئے کی تقرری وغیرہ وغیرہ مگر حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلا، سب ویسا ہی ہے۔
فروری سولہ کے ہزارہ قتلِ عام کے بعد لشکرِ جھنگوی کے ایک ترجمان نے اس بدترین دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ جیسی گاڑی استعمال کر کے یہ کارروائی کی، اسی طرح کی مزید بیس گاڑیاں باقی ماندہ ہزارہ پر حملے کے لیے تیار ہیں۔
اور ذرا ہمارے تحفظ پر معمور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت تو دیکھیے کہ انہیں اس پر اب بھی شبہ ہے کہ لشکرِ جھنگوی اپنی دھمکی پر عمل کرسکتا ہے؟
خود کو کسی بھی ذمہ داری سے بری الذمہ کرنے کی کوشش تو دیکھیے کہ آئی ایس آئی اور وزیرِ داخلہ رحمان ملک، دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صوبائی انتظامیہ کو ہزارہ پر بڑی دہشت گرد کارروائی کے بارے میں پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔
قلتِ آب سے دوچار کوئٹہ، جہاں شہر میں مضافات سے روزانہ سیکڑوں واٹر ٹینکر پانی لے کر آبادیوں میں پہنچتے ہیں، وہاں یہ وارننگ ویسی ہے کہ جیسے پولیس کو کہہ دیا جائے کہ بھوسے کے ڈھیر میں گم سوئی تلاش کرو۔
وہ بات جس کی وضاحت میں یہ ناکام رہے، یہ ہے کہ لشکرِ جھنگوی نے کس طرح لاہور کی منڈی سے ایک ٹن سے زیادہ دھماکا خیز کیمیائی مواد خریدا اور پھر اسے سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے بنا کسی رکاوٹ یا چیکنگ سے گزرے، اسے اپنی کمیں گاہوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
مجھے خوشی ہے کہ آخر کار عمران خان نے بھی اپنی خاموشی توڑی اور کھل کر لشکرِ جھنگوی کی مذمت کی تاہم ضرورت ہے کہ آگے بڑھ کر اس حقیقت کا اعتراف کر لیا جائے کہ قاتلوں کے ان گروہوں میں سے اچھے اور بُرے کا امتیاز روا نہیں رکھا جاسکتا۔
جب یہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو انہیں ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ تحریکِ طالبان پاکستان، لشکرِ جھنگوی کی نظریاتی رہنما ہے اور یہ یقین ہے کہ وہ اکثر حملوں سے پہلے اُن کے ساتھ صلاح و مشورہ بھی کرتے ہیں۔
گذشتہ سال اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ دفاع پاکستان کونسل کی ایک ریلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر نائب صدر اعجاز چوہدری کے برابر میں، اسٹیج پر ملک اسحاق بیٹھے تھے، جو لشکرِ جھنگوی کے نہایت اہم رہنما ہیں۔ ایسے میں کچھ سوالات تو ضرور اٹھیں گے۔
لشکرِ جھنگوی پر قانوناً پابندی عائد ہے مگر اس کے باوجود اس کی قیادت کو عوامی منظر نامے پر موجودگی سے شاید ہی کوئی گھبراہٹ یا پریشانی ہوتی ہو۔
یہ ہمارے لیے حیرانی کا باعث ہرگز نہیں کہ ملک اسحاق کو سن دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا، باوجود اس کے کہ یہ ایک سو سے زائد فرقہ وارانہ قتل کے مقدمات میں ملوث ہیں۔
یہ بات قابل سمجھ ہے کہ جب سے ان کی رہائی ہوئی ہے، تب سے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر دہشت گرد حملوں میں زیادہ تیزی آچکی ہے۔
سن دو ہزار آٹھ میں کوئٹہ کنٹونمنٹ میں واقع ہائی سکیورٹی جیل سے لشکرِ جھنگوی کے دو رہنما پُراسرار حالات میں فرار بھی ہوچکے تھے۔
رحمان ملک کی کوشش ہے کہ وہ ذمہ داری صوبائی حکام کے سر پر تھوپ دیں تاہم انہیں یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ رواں سال دس جنوری کو کوئٹہ میں ہی ہزارہ شیعوں پر حملے کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتوں کے بعد، بلوچستان میں اب گورنر راج نافذ ہے اور یہاں ذمہ داریاں وفاقی حکومت کے سر پر جاتی ہیں۔ بلاشبہ انہیں مہذبانہ طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بہت پہلے ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
حکومت میں سے بعض کی کوشش رہی ہے کہ فروری حملے کی ذمہ داری غیر ملکی عناصر پر ڈالی جاسکے، جس کی آڑ گوادر کی بندرگاہ ہے، جس کا معاہدے کے تحت آپریشنل انتظام چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔
تاہم یہ صرف من گھڑت جواز ہوسکتا ہے۔ رواں سال جنوری میں جب اسی طرح کا بدترین حملہ ہزارہ پر ہوا، تب تو ایسا کوئی معاہدہ ہوا تھا نہ ہی اس کی بازگشت تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے شیعہ ان دہشت گردوں کا ہدف بن رہے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے لاہور میں ایک شیعہ ڈاکٹر اور اس کے کمسن بیٹے کو دہشت گردوں نے راستے میں گولیاں مار کر قتل کیا ہے۔
مظلوم، بے بس اور پریشان ہزارہ کا مطالبہ ہے کوئٹہ فوج کے حوالے کردیا جائے لیکن سچ تو یہ ہے کہ فوج خود مسئلے کا ایک حصہ ہے۔ حقیقت میں وہ صوبے کے اندر کئی سالوں سے حقیقی اختیارات کا سر چشمہ ہے۔
وہ بغاوت کو کچلنے کے وہاں شدت پسند گروہوں جیسا کہ لشکرِ جھنگوی، کو استعمال کررہے ہیں۔ ان کے زریعے وہ بلوچوں کو اغوا اور قتل کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہزارہ کے قتل کے بعد محفوظ کمیں گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان مسلح اور خطرناک گروہوں اور عسکریت پسندوں کا گڑھ بن چکا ہے جو تیزی سے اپنے کثیر المقاصد مذہبی، سیاسی اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
افغان طالبان سے لے کر بلوچ نیشنل آرمی اور جنداللہ تک، صوبے میں مختلف تششدد پسند قوتوں کا ایک مرکب موجود ہے جو عفریت کی طرح صوبے پر چھاچکا۔
ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو بدقسمت ہزارہ کا ہمدرد ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ سکیورٹی کی صورتِ حال کتنی ہی سخت ہو انہیں وہاں نہیں رہنے دیا جائے گا۔
شاید ہی کوئی بمشکل دعویٰ کرسکے تاہم پولیس اور آرمی کے پاس بھی وہ اہلیت نہیں کہ جو خود کش حملہ آور کو روک سکے۔
جب نظریہ تکفیر کی بنیاد پر مساجد اور مدارس میں دوسرے مسلمانوں کے قتل کا جواز بیان کر کے، اس مذموم نظریے کا پروپیگنڈا ہوتا رہے گا تب تک اس میں الجھے قاتل قتل و غارت گری کا اپنا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کے قتلِ عام کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے لیکن ہمارے سول اور فوجی سکیورٹی ادارے مشترکہ طور پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکے۔
دنیا میں ایسا کوئی دوسرا ملک نہیں جو مذہب کے نام پر کیے گئے تششدد اور قتل و غارت سے اتنی بُری طرح متاثر ہو جتنا کہ پاکستان، اور دنیا میں ایسا بھی کوئی دوسراملک نہیں جہاں خطرے کا اتنے کم پیمانے پر مقابلہ کیا گیا ہو۔
سوچنے کی بات ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چالیس ہزار افراد اپنی جانوں سے گئے مگر اس کے باوجود ہم دہشت گردوں کے خاتمے کا راستا نہیں تلاش کرسکے۔
دوسرے ممالک اس طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر قوانین بناتے ہیں، اعلیٰ تربیت یافتہ اہلکار متعین کرتے ہیں اور انہیں جدید ترین اسلحہ دیا جاتا ہے۔ وہاں سکیورٹی اداروں کے مابین خفیہ اطلاعات کا تبادلہ معمول ہوتا ہے۔
لیکن پاکستان میں خفیہ ایجنسیاں حاصل شدہ معلومات کو اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہیں، رہی وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو وہ بمشکل ہی مربوط آپریشن کر پاتی ہیں۔
ایسے میں اب بھی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اس بات پر کوئی اتفاق موجود نہیں کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جانا چاہیے۔
سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان کشیدگی کا مطلب ہے کہ دونوں عسکریت پسند قوتوں کے خلاف متحد ہونے کے بجائے، ایک دوسرے کے بر خلاف مقاصد پر عمل پیرا ہیں۔
تازہ ترین اور نہایت سفاک دہشت گرد حملے کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ حالات تبدیل ہوجائیں گے۔
ریاست ہمیشہ ہماری توجہ بٹانے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات پر انحصار کرتی ہے: جتنی جلد کوئی اور واقع رونما ہوتا ہے، اتنی ہی جلدہماری توجہ کوئٹہ سانحے سے ہٹ جائے گی۔ جلد ہی ہزارہ کا قتلِ عام ایک معمول کی بات بن کر رہ جائے گا۔
مضمون نگار 'فیٹل فالٹ لائنز: پاکستان، اسلام اینڈ دی ویسٹ' کتاب کے مصنف ہیں۔
irfan.husain@gmail.com
ترجمہ: مختار آزاد