صفدر آباد سے پہلے شہر کا نام منڈی ڈھاباں سنگھ تھا۔ پھر وہی ہوا جو پرانے شہروں میں ہوا کرتا تھا۔ سڑک کسی نے بنائی، تختی کسی کی لگی اور مشہور کسی اور کے نام سے ہو گئی. ایسے ہی لکیر اشوک نے کھینچی، سرائے شیر شاہ نے بنوائی، نام انگریزوں نے رکھا اور آج جی ٹی روڈ پر جمہوری حکمرانوں اور آمروں کے نام نظر آتے ہیں۔ ڈھاباں سنگھ کون تھا، اب اس کا کھوج کون لگائے سو مقامی سیاستدان کے نام پہ شہر کا نام بدل دیا گیا۔
ریل چلتی ہے تو صفدر آباد کے بعد سانگلہ ہل کا اسٹیشن آتا ہے۔ شہر کی وجہء شہرت ایک پہاڑی ہے جو کسی زمانے میں اتنی بڑی تھی کہ اس کے سامنے شہر چھوٹا پڑتا تھا۔ ریل کے ڈبے یہاں سے پتھر لے کر پورے ہندوستان جایا کر تے تھے۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ ساندل بار کے اس حصے میں آس پاس کہیں کوئی پہاڑی سلسلہ نہیں تھا۔
شہر کی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی تاریخ یہاں سکندر کی آمد کا ذکر بھی کرتی ہے جو اس پہاڑ پہ پورا ایک سال گزار کر گیا۔ آبادی بڑھتی گئی اور پہاڑ گھٹتا گیا، پھر جب صرف ماضی کا نشان رہ گیا تو تراش خراش موقوف ہو ئی، اب بچی کھچی پہاڑی ہے اور اس کے اردگرد ایک پارک ، جہاں کوئی نہیں آتا۔
شہر کا دوسرا تعارف حمید نظامی ہیں۔ اورئنٹ نیوز ایجنسی سے نظریہء پاکستان تک کا سفر حمید نظامی نے خوابوں کے سہارے طے کیا تھا۔ 1940 میں جاری ہونے والا نوائے وقت پہلے ایک ماہانہ شمارہ تھا، پھر پندہواڑے چھپنے لگا، پھر ہفتہ وار اشاعت شروع ہوئی اور آخر کار یہ ایک روزنامہ بن گیا۔ ہر خودساز آدمی کی طرح نظامی صاحب نے بھی آدرشوں کے سہارے زندگی گزاری، مارشل لاء لگا تو علم ہوا کہ پاکستان میں خواب بچانا کتنا مشکل ہو گا۔ عزیز ہم وطنو کی پہلی قسط ہی ان کی زندگی کی آخری قسط ثابت ہوئی۔ راستے میں مڑھ بلوچاں کا گاؤں ہے، جہاں کسی زمانے میں ڈاچیوں والے آیا کرتے تھے۔
پٹڑی کے شمال میں خانقاہ ڈوگراں اور کشن گڑھ کے قصبے ہیں ۔ نہر کے ساتھ ساتھ چلیں تو ہریالی، کھیتوں اور وٹوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ رکھ برانچ اور گوگیرہ برانچ نے زندگی کے یہ دھارے آپس میں بانٹ رکھے ہیں۔ آباد کاری کے دوران کھودی گئی ان نہروں نے دور دور سے لوگوں کو لا کر پنجاب میں آباد کیا۔
انگریزوں کے نزدیک ان جگہوں کے نام محض ہندسے تھے، مگر رہنے والوں کے لئے ہر گھر ایک کہانی تھا۔ مانانوالہ، کوٹ دیال داس، چندر کوٹ، کوٹ بھاگا سنگھ، امام پور نیکودر کے چھوٹے چھوٹے قصبے پرانی پرانی باتیں جانتے ہیں۔ بھگوان پورہ اور آنند پورہ نام کی کچھ بستیاں یہاں بھی ہیں اور ہندوستان میں بھی، بھگوان اور آنند البتہ دونوں جگہ سے رخصت ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف وار برٹن کے آگے ایک نئے سلسلے کی ابتدا ہے۔ جیسلمیر کی مہم کے دوران علاؤالدین خلجی اور راجپوتوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ جنگ کے اختتام پہ غلاموں کے بادشاہ نے بھٹیوں کے زندہ بچ جانے والے بیٹے کو اپنے پاس رکھ لیا۔ خلجی، اس اکلوتے راج کمار کی بہادری سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے فوج نہ رکھنے کی شرط پہ پنجاب کی سب سے زرخیز جاگیر دے دی۔
یہ جاگیر رائے پور کے نام سے مشہور ہوئی اور بعد میں اسے رائے بھوئے دی تلونڈی کہا جانے لگا۔ پندرہویں صدی کے اس شہر کا حاکم رائے بلار تھا ، جس نے پہلی بار گورو نانک کی روحانی صلاحیتوں کو پہچانا۔ سولہویں صدی میں شہر کا نام بدل کر نانک کا آنا سے ننکانہ ہو گیا۔
شہر کیا ہے گورو نانک کی زندگی کی یادادشتیں ہیں جو نو گرودواروں کی صورت کھڑی ہیں۔ کیارہ صاحب، بال لیلہ، نہنگ صاحب، تمبو صاحب، پٹی صاحب اور مال صاحب سمیت ہر گورودوارے کی اپنی ایک کہانی ہے۔ کہیں بابا نانک علم حاصل کرنے مولوی قطب الدین کے پاس گئے اور کہیں بچوں کو لیلا سناتے سناتے نام جاپنے کی بات بتائی۔ کہیں سانپ نے اپنے پھن سے سایہ کیا تو کہیں درخت نے اپنا دامن دراز کیا۔ آج ان تمام جگہوں پہ عقیدت مند آتے ہیں اور اس صوفی روائت کو یاد کرتے ہیں جو کبھی پانچ دریاؤں کی شناخت تھی۔
بابا نانک کے والد کالو مہتا، دربار کی ملازمت میں تھے۔ رائے بلار کو جب بابا نانک کے روحانی مقام کا ادراک ہوا تو اس نے والد کو بلا کر بیٹے کی سرزنش سے روکا۔ گرودوارے کے اردگرد کی ڈھائی سو مربعے جاگیر بھی رائے بلار نے ہی گورودوارے کو دان کی تھی۔
کھلے دل کھلے ماتھے ملنے کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور بابا نانک کی پانچ سو سالہ جنم دن کی تقریبات میں بھٹیوں نے بھی ایک جتھے کی قیادت کی۔ 1887 کے دربار میں رائے حسین بھٹی کو تمغے سے بھی نوازا گیا۔ تقسیم کے موقعہ پہ اس خاندان نے شہر کے تمام سکھوں کو بحفاظت ھندوستان پہنچایا۔ بھٹیوں کا یہ خاندان آج بھی گرودوارے کے اتنا قریب ہے جتنا چھ سو سال پہلے تھا۔ انیسویں پیڑھی کے سلیم بھتی اب خدمت کا یہ فرض قرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔
گرودوارے چلانے کا نظام اول اول اداسی مہانتوں کے پاس تھا جو گرودواروں سے وابستہ تمام جاگیر کے امور بھی دیکھتے تھے۔ جاگیروں کی آمدنی بڑھی تو روپے پیسے کی فراوانی نے پجاری کو دولت کے دھیان دھندے میں لگا دیا۔ بیسیویں صدی کی اولین دہائیوں میں پے درپے ہونے والے واقعات نے مہنت نارائن داس پہ انگلی اٹھانا شروع کر دی۔
جڑانوالہ سے آئی پورنماشی کی پجارنوں کے ساتھ ظلم ہوا تو لائلپور کے ماسٹر سندر سنگھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماسٹر صاحب نے پنچوں کے سامنے گورودوارے کے حالات بیان کئے اور فیصلہ ہوا کہ اگلا دیوان گورودوارے میں ہو گا ۔ یہ جنوری کی 24 تاریخ اور 1921 کا سن تھا۔ مہنت سے پوچھ گچھ بڑھی تو اس نے کہا کہ وہ خود بھی ان کاروائیوں کی مذمت کرتا ہے مگر درپردہ منصوبہ بنایا گیا کہ مارچ کے دیوان میں سکھ لیڈروں کو قتل کر کے دوبارہ مہنت کی طاقت بحال کی جائے۔
کئی جگہ لکھا ملا ہے کہ مہنت کی اصل طاقت جاگیردار اور انگریز سرکار تھے جن کو خطرہ تھا کہ اگر گورودواروں کا انتظام مہنتوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے اختیار میں آ گیا تو انگریز سرکا ر کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
مہنت اسلحہ بارود اور کرائے کے قاتل اکٹھے کرتا رہا اور شرومنی کمیٹی کے لوگ اس کے وعدے کا انتظار کرتے رہے۔ انیس اور بیس فروری کی درمیانی رات کو جتھوں کی صورت میں سکھ گوورودوارے پہنچے تو نارائن داس مہنت کے غنڈوں نے ان پہ حملہ کیا۔ جتھے کی قیادت کرنے والے لچھمن سنگھ کو گورودوارے کے آنگن میں موجود درخت سے باندھ کر جلا دیا گیا۔
برسنے والی گولیاں گورودوارے کی دیواروں میں بھی لگیں، جتھے کے جسموں میں بھی اور گرنتھ صاحب کی جلد میں بھی اتریں۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو لاہور کے کمشنر نے نارائن داس کو گرفتار کیا اور گورودوارے کی چابیاں شرومنی کے حوالے کر دیں۔ کچھ اندازوں کے مطابق تقریبا ڈیڑھ سو لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے کی یاد میں اب بھی اکیس فروری کو ارداس کہے جاتے ہیں اور گولیوں سے چھلنی گرنتھ صاحب کو زیارت کے لئے نکالا جاتا ہے۔ گورودوارے کی دیواروں پہ البتہ اب بھی گولیوں کے نشان اور سن اکیس کے شہیدی جتھے کے نام ملتے ہیں۔
بچپن کا ننکانہ بہت خوبصورت تھا۔ دادا جی صدیق سب بچوں کو ساتھ لے کر گرودواروں کا چکر لگواتے اور واپسی پہ آنگن میں بٹھا کر کلمے سنتے، جب سب بچے کلمہ سنا چکتے تو وہ لفظ بہ لفظ عربی سے پنجابی میں ترجمہ کرتے اور آخر پہ دھراتے
اوکتا اوکتا، محمد اوتار
برسوں بعد پتہ چلا کہ یہ الفاظ بابا نانک سے منسوب تھے۔
ننکانہ میں ہر سال دور دیس کے سکھ آتے ہیں، 1988 کی کچھ تلخ یادوں کے علاوہ شہر میں باقی سب اچھا ہے۔ گرودوارہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ مسجد ہے اور مدرسہ بھی۔ اب بھلے کوئی وینکوور سے آئے یا بھٹنڈہ سے، پورے ننکانہ کا مہمان ہے۔ کینیڈا سے آئی من پریت سے اس کے احساس بارے پوچھا تو اس نے کہا کہ ہم اپنی ارداس میں ہر سویرے یہ دعا مانگتے ہیں کہ گرو اپنے گھر کے درشن کروا دے۔ مدرسے سے آواز گونجی میرے مولا بلا لے مدینے مجھے۔