قاتلوں کا ہجوم
یہ دو شہروں کی کہانی ہے- ایک تو اس شہر لاہور کی جہاں کے دانشوروں نے اپنے مشہور و معروف پاک ٹی ہاؤس کی پیدائش نو کا جشن منایا- اور اگلے ہی دن اسی شہر کے ایک ہجوم نے جو نفرت کے جذبات سے بھرا ہوا تھا عیسائیوں کے ایک محلہ میں درجنوں مکانوں کو نذرآتش کر دیا-
گزشتہ ہفتہ لاہور جنون و دیوانگی کی بدترین تصویر پیش کر رہا تھا- لاہور کا رومانوی پاک-ٹی-ہاؤس گزشتہ تیرہ سال سے بند پڑا ہوا تھا- یہاں شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کے اجتماع کی خبر نے میرے دل کوگرما دیا- یہ واقعہ ایک ایسے شہرمیں امید کا چراغ تھا جہاں چند ہی ہفتوں پہلے ایک شیعہ ڈاکٹر اور ان کے بیٹے کوفرقہ پرست قاتلوں نے موت کے گھا ٹ اتار دیا تھا-
مشہور و معروف کالم نویس اور مصنف جناب عطا الحق قاسمی نے صحافیوں کو بتایا کہ پاک - ٹی - ہاؤس پاکستانی دانشوروں کا ویٹیکن سٹی ہے- اور یہ لوگ اسکی افتتاح نو کی تقریب کیلئے جمع ہوئے ہیں-
لاہور کے ادبی ستارے ابھی اپنے ویٹیکن سٹی کی پیدایش نو کی تقریبات منا ہی رہے تھے کہ ایک ہجوم نے ویٹیکن سٹی کے اصلی پیروکاروں پر حملہ کردیا جو لاہور کے غریب ترین محلے کے با سی تھے-
لاہور کے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی کی عیسائی آبادی جان بچانے کی خاطراپنا مال واسباب چھوڑ کر بھاگنے لگی- ہجوم نے پوری کالونی کو تہس نہس کردیا- ان کا مال و اسباب لوٹ لیا اور درجنوں مکانوں کوآگ لگا دی-
آگ کے شعلوں نے ایک لڑکی کے سارے جہیز کو جلاڈالا جسکی عنقریب ہی شادی ہونے والی تھی - یہ ایک پنشن یافتہ جمعدار کی زندگی بھر کی کمائی تھی- اس آگ نے اس طالب علم کے سارے کاغذات جلاڈالے جسے امتحان دینا تھا - اور یہ سب کچھ رسول الله کی حرمت کی حفاظت کے نام پر کیا گیا تھا -
حکومت پنجاب نے تحقیقات کا حکم دیا جبکہ پنجاب کے وزیرآعلیٰ میاں شہباز شریف نے عیسائی اقلیت پر ہونے والے حملے کو بہیمانہ قرار دیا- اگرچہ کہ پنجاب حکومت نے پرزور الفاظ میں اس واقعہ کی مذمت کی ہے تاہم، امید کم ہی ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا یا پھرمظلوموں کی املاک کے نقصانات کی تلافی اور ان کی تکالیف کی داد رسی کی جائیگی-
یہ 2009 کی ہی بات ہے کہ گوجرا میں ایک ہجوم نے عیسائیوں کی ایک اور آبادی پر حملہ کیا تھا جس میں نو عیسائی ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے سات افراد کو زندہ جلا دیا گیا تھا- نیز ایک گرجا گھرسمیت درجنوں مکانات کو آگ لگا دی گئی تھی-
اس وقت بھی پنجاب حکومت نے اسی قسم کا اعلان کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کریگی اور ملزموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی- اگرچہ کہ اس واقعہ کو ہوئے چار سال ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک کسی مجرم پر گوجرا میں عیسائیوں کے قتل عام پرکوئی مقدمہ نہیں چلا- بلکہ حکومت پنجاب تو اس تحقیقاتی رپورٹ کو بھی شائع کرنا نہیں چاہتی جسے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال حمید الرحمٰن نے اکتوبر2009 کو وزیراعلیٰ کے سامنے پیش کیا تھا- اس رویہ سے پاکستان میں مذہبی اقلیتیں مایوسی کا شکارہوگئی ہیں-
ان دونوں واقعات میں، ہجوم نے عیسائی آبادی والے علاقہ پر بغیر کسی جواز کے گستاخی رسول کے غیرمصدقہ الزامات کی بنیاد پر جو ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص پرلگائے گئے تھے، حملہ کر دیا اور ہجوم نے انھیں اجتماعی سزائیں دیں جبکہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں- گوجرا اور لاہور دونوں ہی جگہ پولیس تشدد کے واقعات کو پہلے سے روک سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا-
علاوہ ازیں، گرچہ کہ مجرم پولیس کی تحویل میں تھا، تب بھی پولیس لاک اپ میں بند افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی- گزشتہ دسمبر میں ایک ہجوم نے دادو میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا تاکہ اس مجرم کو وہاں سے نکالا جا سکے جو شان رسالت کی گستاخی کے جرم میں لاک اپ میں بند تھا- ہجوم اس شخص کو گھسیٹ کر چوراہے پر لے گیا جہاں اسے زندہ جلا دیا گیا-
اقلیتی آبادی عموما گستاخی شان رسالت کے جرم میں ہجوم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے- اکثرو بیشتر اس قسم کے الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں- گوجرا کے قتل عام کے واقعہ ہی کو لے لیجئے اسکی وجہ بھی ایک افواہ تھی کہ قران شریف کے اوراق کی بے حرمتی کی گئی جسکے نتیجے میں بے گناہ عیسائیوں کو موت کے گھا ٹ اتار دیا گیا-
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءالله نے رائٹر کو بتایا کہ "یہ محض ایک افواہ تھی جسے حکومت کے مخالفین نے افراتفری پھیلانے کیلئے استعمال کیا"- جو چیز وزیر قانون کو محض افراتفری نظر آئی وہ دوسروں کے لئے سزائے موت کا باعث بن گئی-
لاقانونیت نے پاکستان کے عوام کوایک جنونی ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے- بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہی عوام کی دیوانگی اور جنوں کا نشانہ بن رہا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی ان لوگوں کے شر سے محفوظ نہیں رہا خواہ اس کا تعلق کتنے ہی بااثر اور دولتمند طبقے سے ہی کیوں نہ ہو- محترمہ بے نظیر بھٹواور پنجاب کے سابقہ گورنرسلمان تاثیر کا قتل اس کی واضح مثال ہیں-
امن عامہ سب کے مفاد میں ہے- تازہ ہوا کی طرح امن عامہ سے چند کو نہیں سبھوں کو فائدہ پہنچتا ہے- معاشرہ اور ریاست کیلئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ امن و آشتی قائم رہے- ورنہ وہ ہجوم جس نے جوزف کالونی کو نذر آتش کردیا وہ شان رسالت کے گستاخوں کی تلاش میں پاک - ٹی - ہاؤس کا رخ بھی کر سکتا ہے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
