آج اس واقعہ کو 34 سال گزر چکے ہیں۔ پھانسی کا پھندہ تیار تھا۔ تارا مسیح نے وہ پھانسی کا پھندہ بھٹو صاحب کی گردن میں ڈالا، وہ بھٹو جو اپنے آپ سے بڑھ کر کسی کو در خور اعتناء نہیں سمجھتا تھا، وہ بھٹو جس کی خطابت کے چرچے امریکہ سے افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے، جس کی خاطر اس کے دیس کے لوگ جان بھی قربان کرنے کو تیار تھے، جس نے پھانسی پر چڑھنے سے قبل ڈارھی خصوصاَ منڈوا لی تھی، اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم اس جہان سے کوچ کر گیا۔
مردہ بھٹو کی میت کو خصوصی تیارے میں گڑھی خدا بخش لے جایا گیا، اور چپ چاپ دفن کر دیا گیا۔ حکومت وقت زندہ بھٹو سے زیادہ مردہ بھٹو سے خوف زدہ تھی، اسی وجہ سے آج تک جیالے بھٹو کے زندہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
بھٹو صاحب کے بارے میں درجنوں کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ ان کے آل عیال ان کے نام کے بل بوتے پر کروڑوں ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کے اعمال نامے پر ایک نظر ڈالنے سے قبل چند تاریخی حقائق کا تذکرہ ضروری ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک غیر معمولی انسان تھے اور اس بات کے معترف ان کے مخالف بھی تھے۔ ان پر ایک زندہ انسان کو قتل کرنے کا مقدمہ چلایا گیا، اور سزا کی بنیاد یہ تھی کہ اس کاروائی کا حکم انہوں نے دیا تھا لہذا وہ بھی جرم میں شریک تھے۔
قانونی طور پر کسی بھی صوبے کی اعلی ترین عدالت قتل کے مقدمات کی سماعت نہیں کرتی اور اس کا کام نچلی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کے مقدمے کو بحر حال پنجاب کی اعلی ترین عدالت نے سنا اور یہ ایک تاریخی عمل تھا کہ قتل کے مقدمے کی سماعت اعلی عدالت میں ہوئی۔ مقدمے کے دوران کبھی گواہ غائب ہو جاتے تو کبھی انصاف پسند ججوں کی تقرری کسی اور جگہ کر دی جاتی۔
مقدمہ پنجاب کی عدالت سے سپریم کورٹ پہنچا اور حیران کن طور پر سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان نے پھانسی کی سزا کو ٹھیک قرار دیا جبکہ تین نے اس رائے سے اختلاف کیا اور اس اختلاف کے باوجود سزا کو برقرار رکھا گیا۔
ہم ذکر کر چکے ہیں کہ بھٹو صاحب ایک غیر معمولی انسان تھے، اور ہمارے خیال میں ان کے مقدمے میں جس قدر غیر معمولی اقدامات ہوئے وہ ہماری اس رائے کی تائید کرتے ہیں۔ مقدمے کے دوران کی ایک تصویر بہت مشہور ہے کہ جس میں بھٹو صاحب اپنے بہترین لباس میں ملبوس سپاہیوں کے ساتھ عدالت کی جانب جا رہے ہیں اور ان کی چال ڈھال سے یوں لگتا ہے گویا وہ قتل کے مقدمے سے نہیں بلکہ روم فتح کر کے آ رہے ہیں۔
ان کے چاہنے والوں کے لیے بھٹو صاحب کی ذات سے زیادہ ان کا تصور اہم ہے۔ اسی لیے جسمانی طور پر تو بھٹو مر چکا لیکن بھٹو کا تصور آج تک زندہ ہے۔
چند احباب تو یہ مانتے ہیں کہ ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت، جماعت سے زیادہ ایک فرقہ ہے۔ طبقاتی نظام کی مخالفت کی بنیاد پر قائم کردہ جماعت کی سربراہی کے لیے بھٹو ہونا ضروری ہے چاہے آپ کو اپنے والد کا نام ہی کیوں نہ ترک کرنا پڑے۔
عجب معاملہ ہے کہ ’عوامی جماعت‘ ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود اس جماعت کے خالق اور وارث جاگیردار رہے ہیں۔ ایک انگریز صحافی نے لکھا تھا کہ پاکستان میں بھٹو صاحب کے بارے آپ صرف دو طرح کی رائے رکھ سکتے ہیں، یا تو آپ ان کے دیوانے ہیں، یا آپ ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ بھٹو کے اس تصور کا سوچ پر تسلط اس قدر حاوی ہے کہ جیالے ان کی گستاخی کرنے کا سو چ بھی نہیں سکتے۔
یہ بات درست ہے کہ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پاکستان کا ایک معقول آئین تیار کیا گیا، شکست خوردہ سپاہ کو واپس بلایا گیا، تعلیم اور توانائی کے شعبوں میں کام ہوا اور ایک عام آدمی کا وقار بلند ہوا، لیکن ساتھ ہی ساتھ گھاس بھی کھانی پڑی، ریاست نے اسلام کی تعریف متعین کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا، صنعتوں کو بھی قومیایا گیا، اپنے ہی بنائے آئین میں سات ترامیم بھی کی گئیں ۔
جی تو بہت چاہتا ہے کہ بھٹو صاحب کے مزید ’کارناموں ‘ پر ایک نظر ڈالی جائے، بنگال کی علیحدگی میں انکے شرمناک کردار پر بات کی جائے، حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر پردہ ڈالنے پر جرح کی جائے، پاکستانی افسر شاہی کے زوال میں ان کے کردار کا تذکرہ کیا جائے، بلوچستان میں ملک کی تار یخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن شروع کرنے پر انکو لتاڑا جائے، افغانستان میں ’تزویراتی گہرائی‘ کے حصول کے لیے انکی خدمات پر لتے لیے جائیں، افواج پاکستان کو کھلی چھوٹ دینے پر تنقید کی جائے، لیکن ہمت نہیں ہوتی، کہ ان کی جماعت نے گزشتہ پانچ سال ان کے نام پر جو کچھ کر دیا ہے، اب ہم میں مزید کرنے کی سکت نہیں ہے۔ ایک منفرد اور غیر معمولی شخص کے لیے اتنی شرمندگی کافی ہے۔
بھٹو اگر زندہ تھا بھی تو پچھلے پانچ سال میں اس کی قبر پر جتنی لاتیں گزشتہ حکومت نے رسید کیں، اس دھنائی کے بعد کوئی زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔