چوہدری شجاعت حسین

چوہدری شجاعت حسین گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے سیاست میں...

چوہدری شجاعت حسین گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان کے کاروبار مختلف تجارتی شعبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔

دولت مند صنعت کار شجاعت حسین معزز گھرانے کا پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے والد نے بطور پولیس کانسٹیبل اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔

سن اُنیّسو چھیالس میں، گجرات میں پیدا ہونے والے چوہدری شجاعت حسین نے فورمین کرسچیئن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ اُس وقت تک ان کے والد چوہدری ظہور الہٰی ایک دولتنمند صنعت کار اور معروف سیاستدان بن چکے تھے۔

اس وقت مسلم لیگ ۔ ق سے تعلق رکھنے والے چوہدری شجاعت حسین کا خاندان ٹیکسٹائل، شُگر، فلور ملز کی صنعتوں کے ساتھ ساتھ زراعت سے بھی وابستہ ہے۔

سیاسی کریئر

چوہدری شجاعت حسین پہلی بار سن اُنیّسو اکیاسی میں اپنے والد کے قتل کے بعد سیاست میں داخل ہوئے۔ وہ جنرل ضیاالحق کی مجلسِ شوریٰ میں شامل ہوئے۔ یہ قومی اسمبلی کی طرز پر، جنرل ضیا کے نامزد ارکان پر مشتمل غیر منتخب ادارہ تھا۔

جلد ہی بطور سیاستدان انہوں نے شہرت حاصل کرلی اور سن اُنیّسو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر شامل ہوئے۔

چوہدری شجاعت حسین جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو پنجاب بھر میں پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے مسلم لیگ ۔ ق کے سربراہ کو ایسے طاقتور سیاستدان کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جو انتخابات جیتنے کی قوت رکھا ہو۔

چوہدری شجاعت چار بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ پہلی بار اُنیّسو پچاسی، دوسری مرتبہ اُنیّسو اٹھاسی، اس کے بعد اُنیّسو ستانوے اور پھر سن دو ہزار دو میں۔

بطور وفاقی وزیر اُن کے پاس داخلہ، اطلاعات و نشریات، پیداوار اور صنعتوں کے قلمدان رہے۔ ان کی وزارتوں کے یہ قلمدان جنرل ضیا اور پھر نواز شریف کے دورِ وزارتِ عظمیٰ سن اُنیّسو نوّے تا ترانوے کے درمیان رہے۔

جہاں تک ان کی سیاسی وابستگی کا تعلق ہے تو ابھی حال میں مسلم لیگ ۔ ق کی تشکیل سے پہلے تک، وہ مسلم لیگ ۔ نواز کا حصہ تھے، جو سن اُنیّسو اٹھاسی اور سن اُنیّسو نوّے کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی ایک اہم جماعت تھی۔

چوہدری شجاعت حسین نے جنرل پرویز مشرف  کی حمایت سے، مسلم لیگ نواز سے علیحدہ ہونے والے ارکان پر مشتمل اپنا الگ دھڑا تشکیل دیا، جس کے بعد ان کی سیاسی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔

ایک موقع پر چوہدری شجاعت حسین نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کم معروف سیاستدان اور اپنے دوست میر ظفراللہ جمالی کو وزیراعظم بنانے کی پُرزور حمایت کی تھی۔

میر ظفر اللہ جمالی کی وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد، سن دو ہزار چار میں چوہدری شجاعت حسین مختصر مدت کے لیے وزیرِ اعظم پاکستان بھی بنے۔ چند ہفتوں کے بعد جنرل پرویز مشرف کے تجویز کردہ شوکت عزیز کو ملک کا نیا وزیرِ اعطم بنایا گیا۔

پرویز مشرف کے پورے دورے حکمرانی میں چوہدری شجاعت حسین 'کنگز پارٹی' کے سربراہ کے طور پر بدستور طاقتور سیاستدان رہے۔

اگست سن دو ہزار چھ میں، قتل سے کچھ عرصہ پہلے تک وہ بلوچستان کے رہنما مرحوم اکبر بگٹی سے مذاکرات کرتے رہے تھے۔

بعد میں انہیں سن دو ہزار سات میں، آپریشن شروع کرنے سے قبل لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ سے بھی مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کے صدرِ پاکستان کے عہدے سے مستعفی اور پھر بیرونِ ملک روانگی کے بعد، شجاعت اور ان کی جماعت کا سیاسی مستقبل دھندلاتا محسوس ہونے لگا۔

اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ۔ ق خود کو سیاسی زینے پر سب سے بُلند قدمچے پر کھڑا رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور اس کی روایتی حریف مسلم لیگ نواز سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری۔

پاکستان مسلم لیگ ۔ ق، چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہٰی کے چہروں کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر موجود ہے تاہم ان کی جماعت میں کارکنوں کا فقدان ہے۔

اس لیے بڑا انحصار اُن پر ہے جو انتخابات میں فتح حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، جنہیں سیاسی اصطلاح میں 'الیکٹ ایبل' کہا جاتا ہے، لہٰذا ایسے میں اب یہ جماعت زیادہ تر ان کے 'کزنز' تک محدود ہے۔

چوہدری شجاعت حسین کے نظریات کا جھکاؤ فوج کی طرف واضح نظر آتا ہے۔ وہ جنرل ضیا الحق کے ساتھیوں میں رہے اور پرویز مشرف کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دیا۔

تجربہ کار سیاست دان اسٹیٹس کُو اور نظریات کو ایک طرف رکھ کر معاملہ فہمی پر توجہ مرکوز رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف کی حمایت کا تعلق ماضی میں اُن کے کالج کے ایام سے جڑتا ہے۔

اگرچہ اس دوران اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے تاہم سن دو ہزار آٹھ تا تیرہ پر مشتمل پارلیمنٹ کے دور کا ایک بڑا حصہ انہوں نے پی پی پی کی حمایت اور پھر ان کی مخلوط حکومت میں شمولیت کے ساتھ گذارا۔ عام پر طور ان کے تعلقات ہموار ہی رہے۔ چوہدری شجاعت اس وقت سینیٹ کے رکن ہیں۔

الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئے، اثاثوں کے گوشوارے سن دو ہزار گیارہ ۔ بارہ کے مطابق چوہدری شجاعت کے پاس کار نہیں ہے اور دو مکانات میں ان کا پچاس فیصد حصہ ہے جو بالتریب باون لاکھ اور چونتیس لاکھ بنتا ہے۔

حالیہ خبروں میں

انتخابات کے قریب آتے ہی بنتے ٹوٹتے سیاسی انتخابی اتحاد کی خبروں میں چوہدری شجاعت مرکزِ نگاہ ہیں۔

معاملہ فہمی اور مذاکرات کے ماہر سمجھے جانے والے چوہدری شجاعت تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے حکومتی نمائندوں پر مشتمل مذاکراتی وفد کی صفِ اول میں تھے۔

گذشتہ جنوری میں اسلام آباد میں دھرنا دینے والے کینیڈین مولوی سے کامیاب مذاکرات اور معاہدے تک پہنچنے میں ان کا بھی ایک اہم کردار بیان کیا جاتا ہے۔

طالبان سے امن مذاکرات کے لیے جے یو آئی ۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بلائی گئی کُل جماعتی کانفرنس میں چوہدری شجاعت حسین نے پاکستان مسلم لیگ ۔ ق کی نمائندگی کی۔

پاکستان مسلم لیگ ۔ ق سے ناراض کئی ارکان ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مختلف جماعتوں سے گفت و شنید میں مصروف ہیں۔

اب تک انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کامیابی سے مذاکرات کیے ہیں اور دونوں جماعتوں میں، حالیہ انتخابات کے دوران مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے کا اصولی فیصلہ ہوچکا ہے۔

تحقیق و تحریر: حبا اسلام

ترجمہ: مختار آزاد