نقطہ نظر

بال کی کھال

پاکستانی عورت اگر ماڈرن ہونا چاہے تو سب سے پہلے شوہر کو چونا اور بالوں کو سنہری کلر لگواتی ہے۔

بال رحمت ہیں یا زحمت اس پر کسی نے بھی تفصیل سے روشنی  نہیں ڈالی۔ سچ تو یہ ہے کہ  بالوں میں روشنی نہیں تیل ڈالا جاتا ہے یا پھر کالا رنگ ۔ انسان بھی کتنا بے وقوف ہے خود کا رنگ کالا ہو تو اسے سفید کرنے کے چکر میں رہتا ہے اور بال سفید ہوجائیں تو اسے کالے کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔

قدرت نے بال دے کر انسان کو مصروف کردیا ہے۔ بالوں کو سنوارو، کنگی کرو ، تیل لگاؤ،اس کی کٹنگ کرو وغیرہ وغیرہ ۔

بال ہونا بھی مصیبت اور نہ ہونا بھی تکلیف۔ جن کے بال اُڑجاتے ہیں گویا ان کی زندگی سے خوشی اُڑجاتی ہے۔ دنیا بھر کے اندر احساس کمتری میں مبتلا لوگوں میں سب سے بڑی تعداد گنجوں کی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو گنجا ہونا بڑی نعمت ہے۔ گنجے کئی طرح کی مصیبتوں سے بچے رہتے ہیں۔ ہر مہینے انہیں حجام کے آگے سر جھکانا اور بال ہونے کا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا۔ کنگھی، برش،شیمپو اور ہیئر آئل کی حاجت نہیں رہتی۔ سر اور مُنہ کا پسینہ ایک ہی رومال سے ون ٹچ شاٹ میں صاف کرنے کی آسانی ہوتی ہے۔ سفید بال دیکھ کر جوانی جانے کا غم پیدا نہیں ہوتا۔

ویسے گنجوں کی کئی قسمیں ہیں۔ جو ہر طرف سے پورے گنجے اور غیر شادی شدہ ہوں، وہ خوش قسمت ہوتے ہیں۔ کوئی مائی کا لعل ان کا  بال بیکا نہیں کرسکتا۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں حجامت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ وہ جو درمیان سے یا سامنے سے گنجے ہوں، ان کا شمار ’ہی‘ میں ہوتا ہے نہ ’شی‘ میں۔ ہر کوئی انہیں یاد دلاتا ہے کہ تم گنجے ہو رہے ہو۔ گنج، دوسری شادی اور کرپشن چھپانا بڑا محنت طلب کام ہے۔ خدا کسی کو تھوڑا امیر اور تھوڑے بالوں والا نہ بنائے۔

میرے ایک دوست اپنے چھوٹے سے گنج کو چھپانے کے لیے جو بڑی بڑی جتن کرتے ہیں اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ اپنے تین کریڈٹ کارڈز کی پیمنٹ ایک چھوٹی سی آمدنی سے کرنا چاہ رہے ہیں۔ گنج کی وہ قسم جس میں سامنے اور درمیان میں بال برابر کوئ چیز نہیں ہوتی اور اطراف میں بالوں کی جھالریں لٹکتی ہیں، دیکھنے والے کے لیے مضحکہ خیز اور اس کے اونر کے لیے فکر انگیز ہوتی ہیں۔ ایسے گنجے ایک فیشن ایبل کیپ لگاکر دنیا کو اپنی بالوں کی جھالروں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بال والے ہیں۔ ایسوں کا بھانڈا چوراہے پر نہ سہی حجامت خانوں اور غسل خانوں میں ضرور کھل جاتا ہے۔

 کنوارے اگر گنج کا شکار ہونے لگیں تو وہ زیادہ پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ لڑکیاں گنجے لڑکے پسند نہیں کرتیں۔ مشرق میں شاید یہ بات درست ہو مگر مغرب میں لڑکی  ضروری اور غیر ضروری بالوں کی پروا نہیں کرتیں۔ ان کا بس چلے تو مرد کو سر سے پیر تک ہئیر فری کردیں۔ مشرق میں مردوں کے سینے، ہاتھ اور ٹانگوں کے بال مردانہ وجاہت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں مگر مغربی عورتیں ایسے تمام بالوں سے چاہے وہ ان کے اپنے ہوں یا بوائے فرینڈ کے کراہیت محسوس کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک مردانہ وجاہت کا ایک ہی پیمانہ ہے جس کی سختی بھی وہ خوشی خوشی جھیل لیتی ہیں۔

یہ افواہ بھی کسی گنجے ہی نے اُڑائی ہے کہ  سر کے بال جتنے کم ہوتے ہیں بینک بیلنس اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ اس مقولے کے مطابق آصف علی زرداری کو سر تا پیر بال فری اور میرے اُستاد محترم جمیل جالبی کا ایک ایک انچ بالوں سے ڈھکا ہونا چاہئیے تھا۔ حرام دولت علمیت سے نہیں چیٹنگ اور بے شرمی سے آتی ہے۔

اب بات کرتے ہیں ان کی جو بالوں کے زیور سے آراستہ ہیں۔ کچھ سروں پر بال ایسے اُگے ہوتے ہیں جیسے خود رو پودے۔ دنیا کے تمام حجاموں اور جوووں کا رزق انہی بالوں سے وابستہ ہے ۔ خدا اور بادشاہوں کے بعد بنی نوع انسان ان حجاموں کے آگے سر جھکاتی ہے اور اس وقت تک جھکاتی رہے گی، جب تک کہ ان کے سر پر بال ہیں۔ بال والے بیوی کی ناراضگی کے بعد اپنے بال کے گرنے اور سفید ہونے پر کافی پریشان رہتے ہیں۔ دنیا کو بال سفید ہونے پر کوئی نقصان نہیں پہنچا جتنا کہ خون سفید ہونے پر مگر سفید بالوں کو کالا کرنے کی جتن ہر سو ہے۔ آج کی عورت اپنی سوتن برداشت کرلیتی ہے مگر اپنا سفید بال نہیں۔ اگر آپ اپنے سر کے بال نہیں گن سکتے تو ہیئر کلرز کی تعداد بھی نہیں۔ پرانی عورتیں دوپٹہ رنگواتی تھیں، آج کی عورت بال رنگواتی ہے۔ بڑھاپا پہلے بال سے شروع ہوتا تھا ،اب کہاں سے شروع ہوتا ہے یہ سچ اب جھوٹ کے اوٹ میں ہے۔

 مغرب میں عورت گوری اور اس کے بال سنہرے ہوتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو یہاں ’بلنڈ‘ کہتے ہیں اور ان کے لطیفے ایسے ہی مشہور ہیں جیسے پاک و ہند میں کچھ اقوام کے۔

طالبان اور سردار میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ دونوں زیادہ سے زیادہ بالوں پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستانی عورت اگر ماڈرن ہونا چاہے تو سب سے پہلے شوہر کو چونا اور بالوں کو سنہری کلر لگواتی ہے۔

اگر کینیڈا میں ہم کسی سنہری بالوں والی گوری کو غلط انگریزی بولتے دیکھیں اور سنیں تو اسے پاکستانی کہتے ہیں۔ یہاں سینکڑوں پاکستانی عورتیں بیوٹی پارلرز چلاتی ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی اپنی ہیئر کٹنگ فری۔ مغربی عورتیں بال چھوٹے رکھنے اور انہیں رنگنے کی شوقین ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ زلفوں کا نہیں اپنے جسم کا اسیر بناتی ہیں۔

 بال دو طرح کے ہوتے ہیں، ضروری اور غیر ضروری۔ حیرت ہے کہ دونوں کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے یکساں جدوجہد اور پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دونوں طرح کے بالوں کے لیے اتنی پروڈکٹس دستیاب ہیں کہ بعض اوقات رونا آتا ہے کہ ہم بالغ کیوں ہوگئے؟ اگر نابالغ ہوتے تو آدھا پیسہ بچالیتے۔ غیر ضروری بالوں کے اشتہار تیار کرنا ہمارے ملک کے کاپی رائیٹرز کے لیے ایک آرٹ ہے۔ ایسے اشہارات میں آپ بال کا ذکر بال برابر بھی نہیں کرسکتے۔  یہی اشتہار کینیڈا میں تیار ہو تو پاکستانی اسے اپنے ڈراموں اور فلموں سے زیادہ مزہ لے کر دیکھتے ہیں۔

یہ بال ہی کا قصور ہے جو جھڑتے، گرتے اور صاف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وِگ کا بزنس عام ہوا۔ مرد ہو یا عورت جسے بھی اپنے بالوں سے شکایت ہو وہ وگ کا اسیر ہوجاتا ہے۔ اب تو ایسی باکمال وگیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں کہ اصلی اور نقلی کی پہچان مشکل ہوگئی ہے۔ وگ بنانے والوں نے اب بال برابر فرق نہیں چھوڑا۔ شو بزنس کے مقبول ستارے جب نئی تصویر چھپوانا چاہیں نئی وگ لگالیتے ہیں۔ اب زبان سے زیادہ ہیئر اسٹائل اور وگ کی غلطی پکڑی جاتی ہے۔ کچھ وگیں چڑیوں کا گھونسلا لگتی ہیں اور کچھ جنگل کی ویرانی۔ بڑی چٹیا کا زمانہ گیا جسے کھینچ کر آپ محبوبہ کو مائل کرتے تھے اب زلف دراز کی جگہ محبوبہ کی زبان دراز ہے۔ اب حجام ہئیر ڈریسر کہلاتے ہیں اور ریڈیو سیلون یا ہئیر کٹنگ سیلون کا کوئی وجود نہیں ۔

اردو محاوروں کے مطابق بال کی کھال ہوتی ہے جبکہ جسم بتاتا ہے کہ کھال پر بال ہوتے ہیں۔ مجھے عورت کی دراز زلفیں بہت لبھاتی ہیں ۔

شاعر نے کبھی بال کی کھال نہیں نکالی بلکہ اپنی کھال میں رہ کر محبوبہ کے بالوں کو غزل کی جان بنادیا۔

بال کا خیال آتے ہی بال بچے یاد آجاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر بال والے کا بچہ بھی ہو پھر بھی بالغ نظری سے دیکھیں تو بال بچے ایک ہی کھیت کی مولی ہیں ۔ یہ اچھا ہوا کہ بال کی منحوسیت اس سے جدا ہوگئی ورنہ بال کے ساتھ ٹھاکرے کو بھی یاد کرنا پڑتا تھا۔ ویسے بالوں کے ساتھ کھیلنا عورتوں کے علاوہ بال گوسل کو بھی زیب دیتا ہے کیونکہ وہ کینیڈا کے وفاقی وزیر برائے اسپورٹس ہیں ۔

 مجھے اچھا لگتا ہے جب کینیڈا میں ایک نسوانی ہاتھ میری حجامت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تمھاری بیوی کل نیا ہئیر اسٹائل بناکر گئی ہے، اس ویک اینڈ پر جب تم اس سے ملوگے تو کم از کم فیس نیا لگے گا۔  یہی وقت ہے جب میں قہقہہ لگاتا ہوں اور آپ بھی لگائیں اگر بال والے اور شادی شدہ ہیں۔ اب کیا کہوں کہ جوانی نہ رہی پھر بھی میرے بال کھڑے ہوچکے ہیں، لہٰذا اجازت دیں کہ بال چھوڑ کر اخبار کا کچھ اور کام کرلوں۔


مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔