Dawn News Television

شائع 10 اپريل 2013 11:47am

'جانے کس جرم کی پائی ہے سزا'

کابل: افغانستان میں خواتین کی مرکزی جیل میں بند اکیس سالہ افغان لڑکی مریم کو نہیں معلوم کہ وہ یہاں کیوں ہے۔

وہ تو اپنے جھگڑالو شوہر سے جان چھڑا کر ایک رشتہ دار کے پاس مدد کے لیے گئی تھی، لیکن اس نے بندوق کے زور پر اس کا ریپ کر ڈالا۔

ریپ کے بعد جب وہ شخص ایک قریب ہی پڑی میز پر بندوق رکھ کر کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ مریم نے موقع پا کر بندوق اُٹھائی اور اس شخص کے سر میں گولی مار دی۔

اس کے بعد مریم نے بندوق کا رُخ اپنی جانب کیا اور پھر۔۔۔۔ پھر تین دن بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔

مریم نے اے پی کو اپنی کہانی سنانے کے دوران جھجکتے ہوئے جب سر سے اپنا دوپٹہ ہٹایا تو اس کے سر پر بہت بڑا زخم کا نشان تھا، جو کھوپڑی میں گولی کے گھسنے کی وجہ سے بنا تھا۔

مریم نے بتایا کہ اسے بعد میں ہسپتال سے پولیس اسٹیشن اور پھربادام باغ جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں اس کے علاوہ 201 خواتین قیدی موجود ہیں۔

ان میں سے کئی ایک نے تو گھریلو تشدد کی وجہ سے بھاگنے کی کوشش کی تھی یا پھر اس سے بچنے کے لیے انصاف مانگا تھا۔

افغانستان نے عالمی دباؤ کے نتیجے میں کسی حد تک خواتین کے حقوق میں اضافہ تو کیا ہے لیکن یہاں کا معاشرہ اب بھی انتہائی قدامت پسند ہے۔

خانہ جنگی سے دوچار اس ملک میں آج بھی مردوں کا زور چلتا ہے، جو آپسی لڑائیوں اور قرض سے نجات کے لیے جرگوں  سے رجوع کرتے ہیں۔

یہ جرگے عموماً فریقین میں معاملات طے کرنے کے لیے خواتین کے لین دین کے فیصلے سناتے ہیں۔

بادام باغ جیل میں کئی خواتین قیدی بھی ان تجربات سے گزر چکی ہیں۔

جیل کی ڈائریکٹر ظریف جان نائبی نے اے پی کو بتایا کہ یہاں کُل 202 خواتین قیدی ہیں جن میں سے دو تہائی اپنے شوہروں کو چھوڑنے، طے شدہ شادیوں سے انکار یا پھرماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنی مرضی سے شادیوں کے 'جرائم' کی وجہ سے  قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

باقی رہ جانی والی خواتین پر چوری، یا پھر منشیات کے الزامات ہیں۔ دو خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے قتل کیے ہیں۔

کچھ خواتین جب جیل بھیجی گئی تھیں تو وہ حاملہ تھیں جبکہ بعض کے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے۔

اس دو منزلہ جیل کا نام سامنے سڑک کے اُس پار موجود باداموں کے باغ پر رکھا گیا ہے۔ اس کی تعمیر سے پہلے خواتین قیدیوں کو مرکزی کابل میں طالبان دور سے پہلے کی بنی ہوئی ایک جیل میں رکھا جاتا تھا۔

مریم نے اپنے پچھلے تین مہینے اسی قسم کے ایک سیل میں گزارے ہیں۔ لیکن اسے یہ پتا نہیں کہ وہ یہاں کیوں موجود ہے، اس پر کیا الزامات ہیں اور وہ یہاں سے کب تک رہائی پائے گی۔

مریم نے اے پی کو بتایا کہ 'وہ اب تک عدالت نہیں گئیں اور وہ اس حوالے سے انتظار ہی کر رہی ہیں'۔

یہ کہتے ہوئے انہوں نے خود کو اپنی پھٹی پرانی سوئٹر میں مزید چھپا لیا تاکہ جیل کی ٹھنڈ سے بچ سکے۔

جبری شادی سے بچنے کے لیے بھاگ جانا شاید خلاف قانون تو نہ ہو لیکن مقامی عدالتیں معمول کے مطابق ایسی خواتین کو 'زنا کی نیت سے بھاگنے' کے جرم میں سزائیں دے دیتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی پچھلے مہینے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے واقعات کو محض 'اخلاقی' جرائم کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

یہ تعین کرنا تو مشکل ہو گا کہ آیا یہ تعداد پچھلے سالوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔

لیکن اقوام متحدہ کے نائب مشن برائے افغانستان سے جڑے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جارجیٹ گیگون کہتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اب خواتین زیادہ تعداد میں اپنے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کو رپورٹ کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے جیل جانے کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔

رضاکار تنظیم 'حیدر' خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ جیلوں میں قید خواتین کا عدالتوں میں دفاع کرنے کے لیے وکیل بھی مہیا کرتی ہے۔

حیدر کی بانی زبیدہ اکبر بتاتی ہیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف انصاف مانگنے والی خواتین کا جیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

'زیادہ تر جگہوں پر خواتین سے متعلق سوچ تبدیل نہیں ہوئی، یہاں صرف قبائلی قوانین پر چلا جاتا ہے اور ملک کے زیادہ تر حصوں میں خواتین کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں تک نہیں آ سکی ہیں'۔

'آپ کو یہاں کئی پالیسیاں ملیں گی حتٰی کہ نئے قوانین بھی ہیں لیکن کچھ بھی نہیں بدلا'۔

افغانستان کے شعبہ قانون میں مردوں کی غالب اکثریت ہے، اور زبیدہ بتاتی ہیں کہ جب کوئی خاتون قیدی جج کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو جج کہتا ہے 'اسے واپس اپنے خاوند کے پاس جانا چاہیے اور شوہر سے بنا کر رکھنی چاہیے۔ اسی کی غلطی ہے، ہمارے معاشرے میں عورتیں اپنے شوہروں کے پاس ہی رہتی ہیں'۔

قریب ہی خواتین نے اپنے کپڑے دھو کر لٹکا رکھے ہیں۔ اسٹیل کی سلاخوں سے بند بالکنیوں میں خواتین سگریٹ پیتی نظر آتی ہیں۔

یہاں موجود خواتین صرف اسی صورت میں اے پی کو انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئیں کہ ان کا پورا نام نہیں ظاہر کیا جائے گا کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ جیل سے باہر نکلنے پر ان کی زندگی مزید داغ دار ہو جائے گی۔

اپنے نومولود بیٹے کو چپ کراتی نوریہ نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لیے عدالت گئی تھیں کیونکہ ان کے والدین نے انہیں شادی پر مجبور کیا تھا۔

'میں طلاق لینا چاہتی تھی لیکن وہ مجھے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا، میں تو اس سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تھی، میں کسی اور کو پسند کرتی تھی لیکن میرے والد نے مجھے مجبور کر دیا تھا، انہوں نے مجھے انکار کرنے پر قتل کرنے کی دھمکی دی تھی'۔

نوریہ نے مزید بتایا کہ ' جب میں طلاق لینے کے لیے عدالت گئی تو عدالت نے بجائے میری مدد کے، مجھ پر گھر سے بھاگ جانے کا الزام لگا دیا'۔

نوریہ جس شخص کو پسند کرتی تھی اسے بھی جیل جانا پڑا تھا۔

نوریہ نے بتایا کہ جب انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ حاملہ ہیں۔ ان کی گود میں موجود بیٹے کی پیدائش اسی جیل میں ہی ہوئی ہے۔

ان کے خاوند کو جب بیٹے کی پیدائش کا معلوم ہوا تو انہوں نے نوریہ کو گھر واپس آنے کی شرط پر جیل سے رہائی کی پیشکش کی تھی۔

تاہم نوریہ نے، جن کی سزا پوری ہونے میں اب محض آٹھ مہینے رہ گئے ہیں، اس پیشکش کو رد کر دیا۔

'وہ اب مجھے اپنے پاس اس لیے بلا رہا ہے کہ میرے پاس اس کا بیٹا ہے، لیکن میں نے اسے منع کر دیا'۔

یہاں موجود ایک اور قیدی، سات ماہ کی حاملہ آدیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے نشہ کے عادی شوہر کو چھوڑ دیا تھا لیکن جب ان کے والدین نے انہیں واپس جانے پر مجبور کیا تو وہ ایک اور شخص کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں۔

ستائیس سالہ آدیہ اصرار کرتی ہیں کہ ان کی اس شخص کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں تھے۔

'میں اپنے والدین کے  گھر سے جانا چاہتی تھی اور اس شخص نے مجھے کہا کہ وہ میری مدد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس نے میری مدد نہیں کی اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا'۔

'میں غصے میں تھی اور چاہتی تھی کہ اس شخص اور اپنے شوہر کو سزا دلاؤں، اور اسی لیے میں عدالت گئی تھی لیکن اُلٹا انہوں نے مجھ پر ہی الزامات لگا کر چھ سال قید کی سزا سنا دی'۔

آدیہ مزید بتاتی ہیں کہ انہوں نے سزا کے خلاف اپیل کے لیے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا لیکن اس بار انہیں ساڑھے سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

بادام باغ جیل کی سب سے معمر قیدی ساٹھ سالہ فوزیہ ہیں، جو ہر وقت بس جیل کی سلاخوں سے باہر تکتی رہتی ہیں۔

فوزیہ سات سال سے یہاں ہیں اور انہیں مزید دس سال گزارنے ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے شوہر اور بہو کا قتل کیا تھا۔

جذبات سے عاری فوزیہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے اپنی قمیض کی آستین اوپر کی اور اپنے ہاتھوں میں مڑی ہوئی چوڑیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر کے تشدد کی وجہ سے یہ ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔

فوزیہ، جو اپنے شوہر کی چوتھی بیوی تھیں، نے بتایا کہ 'میں ایک کمرے میں تھی اور پھر کسی کام سے دوسرے کمرے میں گئی تو میرا شوہر اور بہو قابل اعتراض حالت میں نظر آئے، جس پر میں نے دونوں کو قتل کر دیا'۔

نائبی نے ان خواتین کے اے پی سے دوران گفتگو واقعات کی تصدیق کی تاہم انہوں نے مزید تفصیل میں جانے سے گریز کیا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی زبیدہ کہتی ہیں کہ افغانستان میں ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہے اور افغان خواتین کے معاملے میں تو کچھ خاص پیش رفت ہوئی ہی نہیں۔

'بظاہر سب کچھ صحیح دیکھائی دیتا ہے لیکن اگر آپ معاملے کی تہہ میں جانا شروع کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بنیادی طور پر کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ یہ تبدیلی مشکل ہے ، بہت زیادہ مشکل'۔

Read Comments