is blog ko Mirza Yasin Baig ki awaaz mein sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو مرزا یٰسین بیگ کی آواز میں سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں
[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/87948603" iframe="true" /]
میری موت پر میرے صحافی دوستوں نے مقامی خبروں والے صفحے پر سیاہ حاشیہ میں دو کالمی خبر لگائی :
“دوسروں کی خبر لگانے والا آج خود خبر اور قبر بن گیا”
ایک نے متن میں لکھا “مرحوم نے اپنے پیچھے صرف ایک بیوہ، دو خوش و خرم بچے، یاہو کی دو، جی میل کی ایک اور ہاٹ میل کے تین اکاؤنٹس، ایک فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹ اور نیٹ پر اپنی لاتعداد ایسی تصاویر چھوڑیں، جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے بیزار تھے۔”
میرے اپنے اخبار نے لکھا “آج ہم مرحوم کی آخری خواہش کے احترام میں ان کی انتقال کی خبر پانچ کالمی لیڈ کی شکل میں لگا رہے ہیں جو انہوں نے زندگی کے آخری ایام میں خود تیار کی تھی۔ مرحوم کو بہت شوق تھا کہ وہ کوئ ایسا کارنامہ کرتے کہ ان کا نام اخبارات کی سرخی بنتا، ہمارا خیال ہے ان کی موت سے ان کی یہ فرمائش پوری ہوگئی۔”
ایک کالم نگار دوست نے تعزیتی کالم میں لکھا “مرحوم آخری برسوں میں “زن” سے انتہائی نفرت کرنے لگے تھے، اگر کسی خبر میں زن لکھنا ہوتا تو چہرے کو ستّر کے زاوئیے پر گھما کر حقارت کے ساتھ “ظن” لکھتے۔ کہتے تھے جو جوانی میں نہ ملی اب اس کے بارے صرف سوچ کر آخرت کیوں برباد کروں۔
سوائے کھانے اور فیس بک کے ہر چیز سے بدظن ہوگئے تھے۔ کھانے کی میز پر بیٹھ کر گھنٹوں فیس بک کی زیارت کرتے۔ اور یہی دو چیزیں ان کی عین بڑھاپے میں موت کا باعث بنیں۔
ڈاکٹرز اور الطاف حسین سے اُنہیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے زندگی چاہتے ہو تو ان سے دور رہو۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر رحمان ملک ان کی قلم کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
مرحوم کو آخری عمر میں پینٹنگ کا شوق ہوگیا تھا، ہر وقت اپنے بالوں کو رنگتے رہتے تھے۔ فخریہ کہا کرتے تھے میرے بالوں نے آخری وقت تک میرا ساتھ دیا ہے، میں ان کا رنگ سفید ہونے نہیں دوں گا۔
مرحوم کو کفن میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کاش اتنا صاف لباس انہیں زندگی میں پہننے کو مل جاتا۔ لانڈری سے چڑتے تھے، کہتے تھے انسان کو اپنے ذہن، کان اور کپڑوں کا میل خود اپنے ہاتھوں سے نکالنا چاہئیے۔ یہ اور بات کہ اس کام کے لیے اپنے ہاتھوں کو سال میں صرف دو بار زحمت دیتے تھے۔
مرحوم کی مزاح کے صنف کے لیے بڑی خدمات تھیں۔ زندگی میں تین بار اپنی بتّیسی تبدیل کی۔ کہتے تھے آدھی عمر بیوی اور آدھی عمر بتّیسی کی خدمت میں گزرگئی۔
اخبار اور کھانے کی پلیٹ چاٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
پاکستانی سیاست دانوں اور شوبز شخصیات کے تمام اسکینڈلز اُنہیں حفظ تھے۔ وہ برائیوں کی چلتی پھرتی وکیپیڈیا تھے۔ کسی کی ذاتیات پر ڈرون حملہ کروانا ہو تو انہیں “چھو” کہنا کافی ہوتا تھا۔
اگر وہ ہکلے نہ ہوتے تو آج کل کے ٹاک شوز کے مقبول سیلیبریٹی ہوتے۔
مرحوم جب بھی منہ کھولتے پان، چھالیہ ، چیونگم یا گالیاں نکلتیں۔ کلمہ صرف آخری وقت کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ پان کے شیدائی تھے۔ مرحوم کی موت پر پان والے ہی سب سے زیادہ غمگین تھے۔
مرحوم کا کوئی دوست تھا نہ دشمن کیونکہ مرحوم اُدھار دینا پسند کرتے تھے نہ اُدھار لینا۔
"میری موت کا میرے دوستوں نے گہرا اثر لیا، ہر ایک نے میری موت کی خبر پر فوری سینکڑوں ٹیکسٹ میسیجز کیے، بہت سوں نے اپنی فیس بک کی وال پر تعزیتی پیغامات لکھے۔
ایک دوست کا ٹیکسٹ میسیج تھا “وہ ہم میں نہیں رہا، اب ہم دل بھر کے چلغوزے اور جھوٹی قسمیں کھا سکتے ہیں۔”
دوسرے نے لکھا “مرحوم کی موت سے خراٹوں کی موسیقی بھی دم توڑ گئی۔ خراٹوں کے بغیر انہیں قبر میں سوتا دیکھ کر خوشی سے میرے آنسو بہنے لگے۔”
ایک ٹیکسٹ یوں تھا “مرحوم اگر جوانی میں فوت ہوتے تو بیوہ سے تعزیت میں زیادہ مزہ آتا۔ وہ اتنا خود غرض تھا کہ اتنی دیر سے مرا کہ بیوہ کی دوسری شادی کا ارمان بھی فوت ہوگیا۔”
ایک کرپٹ سیاستدان نے لکھا “یہ کوئ عام موت نہیں ہے، اس شخص نے ہمیں حرام کا ایک لقمہ چین سے کھانے نہیں دیا، آج حرام کھانے والوں کی آزادی کا دن ہے۔”
ایک شرابی دوست نے لکھا “مرحوم کو ہم نے کبھی پیتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ شراب کی بھری بوتل ساتھ لے جایا کرتے تھے۔”
ایک نے فیس بک پر لکھا “مرحوم دوسروں کو برائی کرتے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ کہتے تھے اس کام کے لیے میں پیدا کیا گیا ہوں۔”
مرحوم ہر کام میں دیر کردیتے تھے۔ وہ خودکشی کے شوقین تھے، کہتے تھے اس سے پہلے کہ خدا مجھے اپنی دنیا سے نکالے میں خود یہ دنیا چھوڑ دوں گا مگر موصوف نے یہاں بھی دیر کردی۔”
ایک اور پیغام تھا “ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے تین موٹے بھی مل کر پورا نہیں کر پائیں گے۔ میں حیران ہوں کرین کے بغیر وہ لحد میں کیسے اتار دیے گئے۔”
ایک نے لکھا “وہ ہمارا دوست تھا، میں اس کی موت کا سن کر ایک منٹ کے لیے غمگین ہوگیا ، اگلے منٹ میرا بلیک بیری بج اٹھا، ایک اور دوست مجھے “ڈرٹی پکچرز” دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا ، مووی دیکھنے کے بعد ہم مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے چلے گئے۔”
ایک ایس ایم ایس تھا “مرحوم قبرستان سے خوف کھاتے تھے اس لیے بہت کم جنازوں میں شرکت کی، آج ان کے جنازے میں بھی قلیل لوگ شریک تھے کیونکہ لوگ ان سے خوف کھاتے تھے۔”
ایک تعزیت کچھ ایسی تھی “اللہ کے رحم کو چیلنج نہ کرو یہ دعا مانگ کر کہ اللہ اُنہیں جنّت نصیب کرے۔”