افغانی برقعے کہاں گئے؟
کابل: مقامی افغان برقع ان دنوں مشرق اور مغرب دونوں جانب سے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔
ایک طرف چین کے انتہائی کم قیمت پر برقعے دستاب ہیں تو دوسری جانب مغربی اثرات شہری خواتین کو برقعوں کے بجائے صرف اسکارف تک محدود کر رہے ہیں۔
برقعوں کا زوال کابل میں سب سے نمایاں ہے، جہاں 2001ء میں امریکا کی سربراہی میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد خواتین نے ناصرف گھروں سے باہر نکل کر کام کرنا شروع کیا، بلکہ مغربی لباس کو بھی اپنایا۔
تاہم صوبوں میں برقعوں کی مانگ میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ وہاں آج بھی خاندانی دباؤ اور طاقتور اور قدامت پسند جنگجو سردار سخت مذہبی اقدار پر عمل پیرا ہیں۔
کابل میں ستائیس سال سے برقعے فروخت کرنے والے عالم نذری کو آج بھی یاد ہے کہ کیسے طالبان دور میں وہ ایک دن میں کم از کم پچاس برقعے فروخت کر لیتے تھے، لیکن آج یہ تعداد کم ہو کر بیس رہ گئی ہے اور ان کی خریدار بھی کابل کے بجائے صوبوں کی خواتین ہوتی ہیں۔
کابل کے پرانے حصے میں واقع ان کی دکان کی ایک دیوار پر مقامی طور پر تیار ہونے والا برقع لٹکا ہوا ہے جس کی قیمت ایک سے تیز ہزار افغانی ہے۔
دوسری دیوار پر لٹکے چین سے درآمد شدہ برقعہ کی قیمت پانچ سے آٹھ سو افغانی ہے۔
نذری نے گاہک سے توجہ ہٹاتے ہوئے بتایا کہ ان کی دکان پر زیادہ تر چین میں تیار ہونے والے برقعے ہی فروخت ہوتے ہیں، کیونکہ کم قیمت ہونے کی وجہ سے خریداروں کی دسترس میں ہیں۔
اسی دوران ایک اور خاتون برقعوں کے پیچھے موجود ایک ٹیسٹ روم سے باہر آئیں اور کم کڑھائی والے برقعے دیکھانے کو کہا۔
ملک کے دور دراز علاقوں میں جہاں اغوا اور ریپ ایک مستقل خطرہ ہیں، برقعہ خواتین کو ایک طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔
لیکن کابل میں کپڑے بیچنے والے دکاندار بتاتے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کے اسکول اور دفاتر میں نوکری کرنے کی وجہ سے برقعوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار خبردار کرتے ہیں کہ اس صورتحال سے بہت زیادہ نتائج اخذ نہ کیے جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ گھریلو تشدد اور جبری شادیوں جیسے معاملات پر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ مسائل برقعوں سے کہیں زیادہ گھمبیر اور اہمیت رکھتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم 'ہیومینیٹیرین اسسٹنس فار ویمن اینڈ چلڈرن' کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر صالحہ غفار کے مطابق: 'افغان خواتین کی حالیہ ترقی اور کامیابیاں مصنوعی نوعیت کی ہیں اور اب تک جو بھی حاصل کیا گیا ہے وہ باآسانی چھن سکتا ہے'۔
صالحہ نے اے پی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ خود بھی غیر محفوظ علاقوں میں سفر کے دوران برقعہ استعمال کرتی ہیں۔
'محض برقع سے چھٹکارے کو خواتین کی حقیقی آزادی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، مجھے بھی قوانین کے تحت حقوق ملنے چاہیں، میرے ساتھ بھی معاشرے میں برابری کی سطح پر برتاؤ ہونا چاہیے'۔
افغان برقعہ ملک میں بننے والے کپڑے سے روایتی انداز میں سلائی کرکے تیار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ملک کے ہر علاقے کی نسبت سے برقعوں کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً کابل میں ہلکے نیلے رنگ کے برقعے عام ہیں تو مزار شریف میں سفید اور قندھار میں ہرے۔
پچہتر سالہ رنگ ساز حاجی حسین کہتے ہیں کہ ان کا کاروبار آج کل مردوں کے کپڑے رنگنے سے چل رہا ہے کیونکہ اب ان کے پاس برقعے نہیں آتے۔
'اس کی وجہ یہ ہے کہ آج خواتین چہرہ کھول کر ہی گھومتی ہیں، برقعہ اب فیشن نہیں رہا'۔