نقطہ نظر

دہشت گردی: اقتدار تک پہنچنے کا راستہ

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیاں اور اشتعال انگیزبیان بازیاں پریشان کن ہیں۔

حال ہی میں نوبل انعام یافتہ البرٹ کامس کا ایک قول میری نظروں سے گزرا: ' کسی بھی مقصد کی قیمت  ایک معصوم انسانی جان نہیں ہوسکتی'۔  ان جذبات کو سراہتے ہوئے میں نے جب اس قول کے سیاق و سباق کی تلاش شروع کی تو میں اس فرانسیسی فلسفی اور ناول نگار کے کام کا حوالہ تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ اگر کوئی قاری مجھے قول کا عین اقتباس بھیج سکے اور یہ بتا سکے کہ کامس نے ان خیالات کا اظہار کس موقع پر اور کہاں کیا تھا تو میں شکرگزار رہوں گا۔

میں اس قول پر زور اسلئے دے رہا ہوں کیونکہ میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں اور اشتعال انگیزبیان بازیوں سے پریشان ہوں ۔  خاص طور پرگز شتہ دہائی میں ریاستی تشدد کے واقعات اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آیا ہے۔

حکومتوں نے غیر ریاستی عناصر کی تعداد، ان کے اثر و رسوخ اور پہنچ میں اضافے کا جواب کمزور قوت کے ساتھ دیا ہے۔  اکثر ریاستوں نے دہشت گرد گروہوں کو تشدد پر اتر آنے کا جواز بھی فراہم کیا ہے۔ مگر زیادہ تر غیرعملی، رومانوی، اور باغی سوچ کے حامل افراد مہم جوئی اور اپنے تشخص کی تلاش میں انتہا پسندی پر اتر آتے ہیں۔

ستمبر نو گیارہ کے واقعے نے اس تاثر کو جنم دیا ہے کہ دہشت گردی صرف اسلامی انتہا پسندوں کی خصوصیت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر سیکولر گروہوں نے بھی بالکل اُسی طرح استعمال کیا ہے جس طرح سے دین سے متاثر ہوئے گروہوں نے۔  دہشت گردی ہمیشہ سے کمزوروں کا ہتھیار رہا ہے۔ ان کا ہدف غیر محفوظ شہری ہوتے ہیں اور مقصد مظلوموں پر بار بار حملے کر کے ریاست کو غیر مستحکم کرنا ہوتا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہونے کے بعد صیہونی گروہ ' ارگن '  بیت المقدس کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر حملہ کرتے ہوئے برطانوی فوجی اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کرتا ہے تواس کا مقصد فلسطین سے برطانوی افواج کا انخلاء تھا۔ اور اتفاق سے اس گروہ کا سرغنہ اسرائیل کا مستقبل کا وزیراعظم میناچم بگن تھا۔

سری لنکا کے سیکولر گروہ تامل ٹائیگرز ایسے بہت سے تشدد کے نت نئےطریقہ کار اور ہتھیاروں کے بانی ہیں جو اب دنیا کے دوسرے گروہ استعمال کرتے ہیں۔ خودکش حملے، خاص طور پر ہمارے لئے، اسی مہلک اور اب کالعدم تنظیم کا تحفہ ہیں۔ لیکن ہم ان کے طریقوں کے بارے میں کچھ بھی سوچیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کے مقاصد سیاسی تھے اور خانہ جنگی کے خاتمے کے تین سال بعد بھی تامل آبادی میں عدم اطمینان کی وجوہات برقرار ہیں۔

ستمبر نو گیارہ کے بعد بہت سی جائز سیاسی مقاصد رکھنے والی قوم پرست تحریکوں کو  دہشت گردوں کے زمرے میں ڈال دیا  گیا۔ تاہم کئی تحریکوں نے جان بوجھ کر معصوم شہریوں کو قتل کر کے اپنی قانونی حیثیت اور احترام کھو دیا۔ مثال کے طور پر کشمیر اور چیچنیا میں آزادی کے جنگجوؤں نے عام لوگوں پر گولیاں چلا کر حاصل ہونے والی بین الاقوامی حمایت کھو دی۔ان کے اس طرزِ عمل نے نئی دہلی اور ماسکو کو بھی اپنے ظالمانہ طریقے بڑھانے کا موقع فراہم کر دیا۔

برطانیہ کے فریڈ ہالیڈے مشرق وسطی کے حوالے سے معروف ماہرین میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک عالم اور بیس کتابوں کے مصنف تھے ، ان کی تحریریں بہت دانشمندانہ تھیں۔ ہالیڈے نے انٹرنیٹ میگزین اوپن ڈیموکریسی کے لئے کئی مضامین تحریر کیئے جنہیں بعد میں 'پولیٹکل جرنیز'یا 'سیاسی سفر' کے نام سے ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیا گیا۔

تشدد اور سیاست' کے عنوان سے ایک باب میں ہالیڈے لکھتے ہیں کہ ' دہشت گردی، ایک نظریئے اور جدوجہد کے ذریعے کے طور پر ایک جدید طرز عمل ہے۔ یہ معاصر ریاستوں اور شورش زدہ معاشروں کے درمیان تنازعہ کی ایک پراڈکٹ  ہے۔ امیر اور غریب، دونوں طرح کے ممالک میں یہ سیاسی مشغولیت کے بین القوامی ماڈل کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس کے جڑیں جدید سیکولر سیاست میں ہیں، یہ کسی خاص مذہب یا ثقافت سے منسلک نہیں ہے۔ ریاستوں کو چیلنج کرنے والوں اور ایک دن خود اقتدار سنبھالنے کی خواہش رکھنے والوں کیلئے یہ کئی آلات میں سے ایک آلہ ہے' ۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں ، پاکستان میں روزمرہ کا معمول بن جانے والے دہشت گردی کے واقعات کا مذہب سے کم ہی لینا دینا ہے ۔ اگرچہ، پاکستانی طالبان اور ان کے دیگر گروہ اسلام کے نام پر معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل کرتے ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ اقتدار چاہتے ہیں۔ ان کے لیئےشریعت تو محض ایک آلہ ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں دھمکانے اور متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دانوں،عدلیہ اور ذرائع ابلاغ  نے جو خلا چھوڑی ہے شدت پسند اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی سیکورٹی فورسز اور ریاست کے خلاف اپنی جدہوجہد میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔

بہت سے واقعات میں ججوں نے دہشت گردوں کو یا تو ضمانت پر یا پھر ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہا کر دیا ۔ گرفتاری کے وقت ان کا مسلح ہونا بظاہر کافی ثبوت نہیں ہے۔ ٹی وی چینلز کے اسٹودیوز میں شاید ہی کبھی جہادی دہشت گردی کی مذمت کی جاتی ہو، اسی طرح سیاست دان بھی دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر بہت کم تنقید کرتے ہیں۔ ہمارے میڈیا اور سیاسی طبقے پر حال ہی میں سات پاکستانی فوجیوں کا سر قلم ہونے کے واقعے کا بہت کم اثر ہوا ہے۔

خطرناک قاتلوں کے لئے ہمارے اسی نرم روئیے سے انہیں ایک جھوٹا جواز فراہم کر دیا ہے جو مزید تشدد کے لیے انکی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔  بہت سے افراد ان کی مذمت کرنے سے اس لئے قاصر رہتے ہیں کیونکہ بظاہر یہ شدت پسند ڈنکے کی چوٹ پر اسلامی مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن اسلام کی ذرا بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ طالبان کے دعوے سراسرغلط ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہزاروں بے گناہ اور معصوم لوگوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کی نہ تو اجازت دیتا ہے اور نہ ہی جواز پیش کرتا ہے۔

پر تشدد واقعات سے ہمارے انسانی تاثرات رفتہ رفتہ ختم ہوجاتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس کا غلبہ اور بڑھتی ہوئی شدت کو مختلف سطحوں پر قبول کیا جا رہا ہے ۔ حکومتیں انتہا پسندی کے اس دلدل سے نکلنے کے لئے موثر سیاسی فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں۔

فلسطین میں مغربی کنارے کے ناجائز اسرائیلی قبضے سے مسلمان ناخوش اور شدت پسندی کے طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ نیٹو کے افغانستان میں غیر سوچے سمجھے آپریشن اور امریکہ کے ڈرون حملے عسکریت پسندوں کو بے گناہ اور معصوم شہریوں پر حملے کا جواز فراہم کررہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، اقوام متحدہ کے تحت امن قائم کرنے کا ایک نظام سامنے لایا گیا تھا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے تنازعات کی روک تھام کی جاسکے۔  اگرچہ مکمل طور پر کامل نہ ہونے کا باوجود ان اداروں نے دنیا کو پچاس سال تک محفوظ بنائے رکھا۔ اور جب سرد جنگ ختم ہوئی تو ہم نے سوچا کہ آخر کار امن کا دور ابھر کر سامنے آئے گا۔ خواب دیکتھے رہیئے۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔