حقائق جائیں بھاڑ میں
ایک ہفتہ قبل امریکہ کے مشہور شہر بوسٹن (Boston) میں ایک میراتھان منعقد کی گئی۔
میراتھان ریس دراصل یونانی تاریخ کے ایک واقعے کی یادگار ہے جب تقریباَ 500 سال قبل مسیح، ایرانی افواج کی شکست کی خبر لانے والے ایک سپاہی نے فرط جذبات میں میراتھان کے میدان جنگ سے ایتھنز شہر تک 25 میل کا فاصلہ دوڑتے ہوئے عبور کیا اور شہر کے لوگوں کو فتح کی خبر پہنچائی۔
اس واقعے کی یاد میں دنیا بھر میں مختلف شہر، مختلف مواقع پر میراتھان منعقد کرتے ہیں۔ بوسٹن میں ہونے والی میراتھان پچھلے 116 برس سے ہر سال اپریل کے تیسرے سوموار کو منعقد ہوتی ہے اور اس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔
اس سال کی دوڑ کے اختتامی مرحلے پر دو دھماکے ہوئے جن کے باعث تین افراد جاں بحق اور دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ تین روز کی تفتیش کے نتیجے میں دو مجرموں کا سراغ لگا لیا گیا اور پولیس کارووائی کے نتیجے میں ان میں سے ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا جب کہ دوسرا زخمی حالت میں پولیس کی حراست میں ہے۔
ہلاک ہونے والے کا نام تیمر لین اور زخمی ہونے والے کا نام جوہر ہے، دونوں بھائیوں کا تعلق اصل میں چیچنیا سے ہے لیکن وہ کئی سال سے امریکہ میں مقیم تھے۔
دھماکوں کے بعد تفتیش کے دوران ہمارے سمیت بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ شاہین ہمارے آشیاں کے نہ نکل آئیں۔ اس سے پہلے پاکستانی نژاد افراد ایسے بہت سے کارناموں میں ملوث رہ چکے ہیں اور ہمارے خدشات بلا وجہ نہیں تھے۔
قرعہ فال بہرحال ہمارے نام نہیں نکلا لیکن مجرم پھر بھی مسلمان تو ہیں اور پاکستان کو ہم اور ہمارے عزیز طالبان ہر حال میں اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ تیمر لین جس کا فارسی ترجمہ تیمور لنگ ہے ایک تاریخی نام ہے اور اس نام کے ایک تاتار مسلمان بادشاہ کی فوج کے ہاتھوں چودھویں صدی میں لگ بھگ 17 کروڑ لوگ لقمہء اجل بنے تھے۔
اس صورت حال کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ آخر ہر دہشت گردی کے واقعے میں مسلمان ہی کیوں ملوث ہیں؟ کیا مسلمان کسی عالمی سازش کا شکار ہیں؟ آخر فلپائن کے ساحل سے لے کر تابخاک بوسٹن ہر شدت پسند تحریک اور جماعت مسلمانوں پر کیوں مشتمل ہے؟ اگر اسلام امن اور آشتی کا دین ہے، تو یہ نفرت اور شدت پسندی کس مذہب کی دین ہے؟ برما، فلسطین اور کشمیر کے مظالم کو دہشت گردی کیوں نہیں کہا جاتا؟
ان سب سوالوں کے جوابات کم از کم ہمارے پاس تو نہیں، اگر کسی صاحب علم کو معلوم ہوں تو ہمیں بھی مطلع کیا جائے۔
مذاہب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو تمام الہامی مذاہب انتشار اور سالہا سال کی جنگوں کے خاتمے کے لیے آئے۔ مذاہب کا مقصد نفرت اور شدت پسندی پیدا کرنا تو نہیں بلکہ ان کا کردار معاشرے کو بہتری کی جانب راغب کرنا تھا۔ یہ اور بات کہ انہی مذاہب کا سہارا لے کر بعد میں انسانیت کا قتل عام کیا گیا۔
یہودیوں کو ان کے مذہب کی بنا پر ان کے وطن سے نکالا گیا، عیسائیوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈالا گیا، مسلمانوں کو ہسپانیہ میں زندہ جلایا گیا اور اس کے علاوہ مذاہب کے مختلف فرقوں کی کشمکش ابھی تک جاری ہے۔
دور بنو امیہ میں گیارہ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں مسلمان مارے گئے۔محمد بن قاسم کے چچا حجاج بن یوسف نے کوفہ میں ایک لاکھ تیس ہزار مسلمانوں کو قتل کروایا۔ بنو عباس کی آمد پر بنو امیہ کے آخری خلفاء کی لاشیں قبروں سے نکال کر انہیں کوڑے مارے گئے۔ عیسائیوں نے تیس سالہ جنگ میں پورے یورپ کو آگ لگا دی۔ ہسپانیہ میں بچے کھچے مسلمانوں اور یہودیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔
موجودہ دور میں افغانستان کے طالبان سے لے کر ازبک جنگجووں اور مالی کے دہشت پسند مسلمانوں کی بربریت کے قصے زبان زد عام ہیں۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملے کیے جو کہ مذمت آمیز تھے لیکن مسلمانوں کا جتنا قتل عام طالبان نے کابل اور مزار شریف پر حملوں کے دوران کیا یا صدام نے کردوں کے علاقے میں کیا، امریکیوں نے تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا۔
دہشت گردی کی جس لہر نے اس صدی کے اوائل سے دنیا کو گھیرا ہو ا ہے اس کے تانے بانے پچھلی صدی سے ملتے ہیں۔ حسن البناء اور سید قطب کے نظریات کی بنا پر پہلے اخوان اور بعدازاں الجہاد نامی تنظیم نے جنم لیا جو 90 کی دہائی میں القائدہ نامی تنظیم میں شامل ہو گئی۔ حسن البناء کے مطابق اسلام کی فطرت حاوی ہونا ہے، اسلام کا مقصد تمام عالم پر اسلامی قانون نافذ کرنا ہے، ہم مغربی جمہوریت یا ایسے کسی اور تصور کو نہیں مانتے۔
قطب صاحب کے مطابق جو مسلمان جمہوری نظام والے ممالک میں رہ رہے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں، ان کی مثال اسلام کی آمد سے قبل جاہلیہ کے دور کے افراد کی سی ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں: اسلام کا اصلی شکل میں نفاذ یا تباہی۔(اسلام کی اصل شکل سے یہاں ان کی مراد وہ مذہب ہے جس کا وہ مانتے ہیں، اس سے جو کوئی اختلاف کرے، وہ جاہلیہ کا حصہ ہے)۔ ان حضرات نے تیرھویں صدی کے عالم ابن تیمیہ کی تعلیمات سے بھی استفادہ کیا۔
اخوان کے ایک راہنما نے مصر کے صدر انور سادات کو قتل کیا اور بعد میں ایمن الظواہری نے اس کی قیادت سنبھالی۔
افغانستان میں امریکی سٹنگ میزائیلوں اور اسرائیلی اصلحے کی بنیاد پر روسی افواج کو پسپائی پر مجبور کرنے والے آج یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے محض اپنے زور بازو پر ایک سپر پاور کو شکست دی اور اب وہ دوسری سے نمٹیں گے۔ یہ بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ افغانستان میں شکست سویت یونین کے ٹوٹنے کا واحد سبب تھی اور یاد رہے کہ اس جنگ میں عرب حضرات کا کردار محض تماشائیوں کا تھا۔
سویت یونین کو تباہ کر دینے کے گھمنڈ کرنے والوں اور فلسطینی دانشور عبداللہ عظام کی تعلیمات کے پیروکار وں نے القاعدہ نامی تنظیم قائم کی۔ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں دھماکوں کے بعد سے دہشت گردی کا جو سلسلہ اس ذہنیت کے لوگوں نے شروع کیا، وہ آج تک جاری ہے۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اس ذہنیت کی ترویج کی اور آج بیشتر پاکستانی شہری انہی مغا لطوں کا شکار ہیں۔ کچھ افراد کے خیال میں القاعدہ اور اس قماش کی دیگر جماعتیں دراصل امریکی نو آبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنائی گئیں جو ایک اور مغالطہ ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے خلاف مظاہرہ اپنے ہی ہم مذہبوں کے قتل کی صورت کیوں کر اختیار کرتا ہے؟
پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ بھی ایک سازش تھی۔ حالانکہ محمد عطا ء اور اس کے ساتھی افغانستان کے خلدان کیمپ میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد امریکہ سے جہاز چلانا سیکھتے رہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے محمد عطاء بھی ہمارے نوجوانوں کی طرح یہی کہتا تھا کہ ساری دنیا کا نظام یہودیوں کے قبضے میں ہے اور بوسنیا، چیچنیا اور کوسوو کی جنگیں یہودی سازش کا نتیجہ تھیں۔ اس نے جرمنی میں اپنی ڈگری لیتے وقت ا پنے استاد سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ ایک خاتون تھی۔ وہی محمد عطاء گیارہ ستمبر کو ایک امریکی جہاز اڑاتا ہوا ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرایا تھا۔
اسی سلسلے کی ایک اور کڑی عافیہ صدیقی تھی جو اپنے تمام تر دنیاوی علم کے باوجود دہشت گردوں کی مدد کرتی رہی۔ اس نے 1993 میں بوسٹن سے ہی بندوق چلانا سیکھی اور اپنے شوہر سے اس لیے علیحدہ ہوئی کہ وہ جہاد میں عملی حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جب مفتی تقی عثمانی نے تصفیہ کرانے کی کوشش کی تو عافیہ نے اپنے دفاع میں عبداللہ عظام کے فتوے کا ذکر کیا۔ اس کی حراست کی خبر ملنے پر ایمن الظواہری نے خصوصی بیان جاری کیا کہ اس بات کا بدلہ امریکہ سے لیا جائے گا۔ الجزائر میں القاعدہ کی جانب سے اس سال جنوری میں بیان جاری ہوا کہ وہ اپنے قبضے میں موجود ساٹھ لوگوں کو رہا کر دیں گے اگر امریکہ عافیہ کو رہا کر دے۔
ابھی تک بوسٹن کے دھماکوں کی وجہ معلوم نہیں کی جا سکی لیکن ماہرین کا قیاس ہے کہ اس کی وجہ بھی مغرب سے نفرت اور اسلام کی سربلندی کا دعوی ہو سکتی ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق تیمر لین نے کچھ عرصہ قبل ایک دوست کو بتایا تھا کہ دس سال گزارنے کے بعد بھی اس کا کوئی ایک امریکی دوست نہیں ہے اور وہ اس نظام کو پسند نہیں کرتا۔ دو سال قبل اپنی بیوی پر تشدد کے با عث اس کو گرفتار بھی کیا تھا۔ اس نے جو آخری چند ویڈیو انٹر نیٹ پر دیکھے، ان میں فیض محمد نامی ایک مولوی کے خطبات کی ویڈیو بھی ہیں جس کے مطابق ہالی وڈ کی فلمیں دراصل دنیا کو کفر کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک ویڈیو خراساں کی فوج پر بھی موجود ہے جو ایک حدیث پر مشتمل پیش گوئی پر مبنی ہے(حدیث کی صحت علماء کے نزیک مشکوک ہے)۔ یاد رہے کہ سلیم شہزاد کی القاعدہ پر کتاب کے پہلے چند صفحات پر بھی اس حدیث اور اس کے ماننے والوں کے بارے میں بحث موجود ہے۔
تیمر لین صاحب نے یکم ستمبر 2012 کو اپنے Twitter اکاؤ نٹ پر لکھا کہ ’نہ جانے کیوں آپ لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ اندرونی کارووائی تھی، حقائق جائیں بھاڑ میں‘۔
اگر آپ اب بھی ان سب واقعات کو یہودی سازش ہی سمجھنے پر مصر ہیں تو ضرور سمجھیں ، حقائق جائیں بھاڑ میں۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
