ساتواں دن: ایزی پیسہ، مشکل زندگی
ساتواں دن: ایزی پیسہ، مشکل زندگیمقامات:بھیرہ، میانی، ملکوال، چک نظام، پنڈ دادن خان، کھیوڑہ، رتو چاہ۔
(تصاویر بڑی کرنے کے لیے کلک کریں)
اگر آپ کو کسی غیر متوقع مقام پر ایسا بڑا شاپنگ مال نظر آئے جہاں ڈسپوزایبل ڈائپرز اور ڈائٹ کوک فروخت ہورہی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ تارکینِ پاکستان کے کسی قصبے میں پہنچ چکے ہیں۔
جب میں نے ضلع منڈی بہاءالدین کےعلاقے ملکوال میں ریلوے لائن عبور کی تو میرا سامنا بھی ایسے ہی ایک مقام سے ہوا۔
میں نے وہاں اپنی پسندیدہ ڈائٹ کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے شاپنگ مال کے مالک نذیر سے پوچھا کہ کیا بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے؟
جواب ڈبل چیک کرنے کے لیے اُس گنّے کے رس والے سے بھی یہی پوچھا، جس کے برابر میری موٹر سائیکل کھڑی تھی۔
اس نے بھی وہی کہانی دہرائی لیکن اپنی دلیل کا وزن بڑھانے کے لیے اس نے مجھے بتایا کہ وہ خود بھی یورپ میں کئی سال گذار چکا ہے۔
مجھے دریا کے اُس پار جانا تھا لہذا گوگل ارتھ دیکھنے کے بعد میں نے اسے چک نظام کے مقام سے عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔
آپ لوگ بھی سٹیلائٹ تصاویرمیں ایک ایسا ہی پُل دیکھ سکتے ہیں جس پر وکٹوریہ برج کا لیبل لگا ہوا ہے۔
میں جانتا تھا کہ یہ ضرور ریلوے لائن کا پُل ہے، لیکن نقشے پر بِنا لیبل ایک اور نقطہ دار لائن دریا کے اُس پار پُل کے متوازی چلی جارہی تھی۔
میں سمجھا کہ یہ ضرور دریا پار کرنے کے واسطے گاڑیوں کےلیے بنا پُل ہوگا لہذا میں نے پل عبور کرنے کے لیے مزید شمال کی طرف جانے کے بجائے اسی راستے پر جانے کا فیصلہ کیا۔
اپنے چند شناساؤں سے رابطہ کرکے اس بارے میں جاننا چاہا مگر کوئی واضح جواب نہ مل سکا۔ جب میں چک نظام پہنچا تب پتا چلا کہ یہ دراصل ایک پائپ لائن تھی جو پُل کے ساتھ ساتھ دریا پار کرتی ہے۔
شکر ہےکہ ریلوے پُل کے ساتھ دونوں جانب پیدل چلنے والوں کے لیے تنگ راستا بنا ہوا تھا، جس پر لوگ موٹر سائیکلیں بھی چلا رہے تھے، لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
ہر طرف پانی ایک بہت بڑامسئلہ بنا ہوا ہے، نہ صرف کاشت کاری بلکہ پینے کے لیے بھی اس نعمت کی کمی ہے۔
میں جس علاقے میں بھی گیا وہ چھوٹا ہی سہی لیکن وہاں کمرشل انٹرپرائزز سیکٹر نے اس خلا کو پُر کیا ہے۔
تاہم اس کے باوجود یہاں کی آبادی اتنی استعداد نہیں رکھتی کہ وہ اس سیکٹر کی مدد حاصل کر سکے لہذا ان کی بڑی تعداد اب بھی تشنہ ہے۔
میں جن کان کنوں سے ملنے کا خواہش مند تھا، اُس روز وہ چھٹی پر تھے۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ اپنے شب بسری کے ٹھکانے پر پہنچوں اور اگلی صبح ان سے ملاقات کروں۔
اگلی صبح بہت اچھی تھی، میرا دن کا آغاز اس سے بہتر انداز میں نہیں ہو سکتا تھا۔
ہلکی ہلکی پھوار کے ساتھ ٹھنڈی سرسراتی ہوا، نگاہوں کے سامنے گندم کے سنہری کھیت، کوئل کی کُوک اور تاحدِ نظر پھیلے پوٹوھاری پہاڑی سلسلے کے دامن میں میرے لیے وہ ایک صبح کامل تھی۔
وہ کتابی قصے کہانیوں کی طرح کی ایک سہانی صبح تھی کہ جب میرا میزبان گرما گرم پراٹھے اور تَلے انڈے کا ناشتا لے کرپہنچا۔ اُس کا چہرہ ہمیشہ کی طرح سپاٹ تھا۔
یہ خوبصورتی تمہیں سحر زدہ کیوں نہیں کرتی؟ میں نے اُس سے شکایتی لہجے میں کہا کیونکہ اُس نے میرے پُر لطف لمحات کو غارت کردیا تھا۔
گذشتہ شب بھی اس نے میرے گاؤں کے سماجی ڈھانچے اور ثقافت کے بارے میں سوالات گول کر دیے تھے۔