مخدوم جاوید ہاشمی

اس وقت تحریکِ انصاف کے مرکزی صدر کے عہدے پر فائز جاوید ہاشمی نے...

اس وقت تحریکِ انصاف کے مرکزی صدر کے عہدے پر فائز جاوید ہاشمی نے اوائلِ عمر سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔

وہ سن اُنیّسو بھہتر میں جامعہ پنجاب کی طلبہ یونین کے صدر تھے۔

وہ کالج کے زمانے میں جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم میں رہنے کے علاوہ مختصر وقت کے لیے اصغر خان کی تحریکِ استقلال میں بھی شامل رہے۔

درحقیقت انہیں اپنے مزاج کے مطابق سیاسی نظریات کی حامل جماعت مل نہ سکی تھی۔

جاوید ہاشمی نے سن اُنّیّسو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا، جس کے بعد، سن اُنیّسو اٹھاسی میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔

وہ کئی مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سن اُنیّسو ستانوے تا ننانوے، وہ وفاقی وزیرِ صحت رہے۔

واز شریف کے دورِ جلاوطنی کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی پاکستان مسلم لیگ نون کے قائم مقام صدر بھی رہے۔

وہ تین بار رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے: پہلی بار اُنیّسو پچاسی، دوسری مرتبہ اُنیّسو نوّے اور تیسری بار سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے ابھی حال میں پاکستان مسلم لیگ نون سے علیحدگی کے ساتھ اسمبلی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

بعد ازاں انہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف

پی ٹی آئی میں شمولیت ہی صرف اُن کا حیران کُن قدم نہیں۔ اپنی کتاب 'ہاں میں باغی ہوں' میں معروف سیاستدان، جو کبھی ضیا الحق حکومت کا بھی حصہ رہے، لکھتے ہیں کہ وہ فوجی آمر کی حمایت کو اپنی پوری سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی سمجھتے ہیں۔

ہاشمی صحیح معنوں میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدان ہیں، جس کتاب کا اوپر حوالہ دیا گیا، وہ انہوں نے جیل میں لکھی تھی۔

انہیں معروف زمانہ بغاوت کیس میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں جیل بھیجا گیا۔

کئی برس بعد وہ سن دو ہزار سات میں سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کیے گئے۔

سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد، یہ اُن چند ارکانِ اسمبلی میں تھے جنہوں نے پرویز مشرف کے ہاتھوں وزارت کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔

گڈ بائے مسلم لیگ نون، ہیلو پی ٹی آئی

لگ بھگ دو دہائیوں تک پاکستان مسلم لیگ نون میں رہنے والے شجاعت ہاشمی کو حالیہ برسوں کے دوران پارٹی نے آہستہ آہستہ نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔

سن دو ہزار سات میں جب انہیں جیل سے رہا کیا گیا، تب بہت مختصر تعداد میں پارٹی کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔

مخدوم جاوید ہاشمی اور شریف برادران کے درمیان آہستہ آہستہ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ انہیں بدستور پارٹی اجلاسوں سے دوررکھا جانے لگا۔

یہ شاید اس وجہ سے بھی تھا کہ کئی مواقعوں پر انہوں نے پارٹی پالیسی سے کھل کر اختلافِ رائے کیا تھا۔

انہوں نے سزا پر معافی مانگ کر جلاوطنی اختیار کرنے کے معاملے پر نواز شریف سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ اس فیصلے پر قوم سے معافی مانگیں۔

محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت کی سیاسی ضرورت بھی تھی۔

مبینہ طور پر اطلاعات ہیں کہ پی ٹٰی آئی میں، مخدوم جاوید ہاشمی اور شاہ محمود کے درمیان کشیدگی موجود ہے۔ شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین ہیں، وہ جناب ہاشمی کے پرانے سیاسی حریف بھی رہے ہیں۔

قریشی اور ہاشمی ملتان کی ایک قومی اسمبلی کی نشست پر، ایک دوسرے کے خلاف چار الیکشن لڑچکے ہیں، جن میں تین مرتبہ ہاشمی کو شکست ہوئی۔

تحقیق و تحریر: حبا اسلام

ترجمہ: مختار آزاد