گیارہواں دن: اقتدار کی بھول بھلیاں
گیارہواں دن: اقتدار کی بھول بھلیاںمقامات: مٹھا ٹوانہ، روڈا، نور پور تھل، اینو، تیتری، بُلّو، چک سات، اٹھارہ ہزاری، جھنگ۔
(تصاویر ، وڈیوز بڑی کرنے کے لیے کلک کریں)
مٹھا ٹوانہ میں اپنے ایک دوست کے گھر قیام کیا۔ یہ دوست ایک تنظیم 'سوسائٹی فار ہیومن امپاورمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ' کے تحت قائم یتیم خانہ میں کام کرتا ہے، جسے عالمی امدادی اداروں کا تعاون حاصل ہے۔
جہاں شب بسری کا فیصلہ کیا، اُس مقام کے بارے میں میری معلومات بہت کم تھیں لیکن اُن سے مل کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جو پنجاب کے نہایت اندرون اور دور دراز علاقے میں اتنا اچھا کام کررہے ہیں۔
جب سے میں نے اپنا سفر شروع کیا، تب سے اس علاقے کے بہت سارے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
مجھے یہ دیکھ کر نہایت دکھ ہوا کہ دسیوں ہزاروں بچے نہات پسماندگی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
اگرچہ یہ ظالمانہ محسوس ہوگا لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اس علاقے میں معمول کی زندگی بسر کرنے والے بچوں کے معیارِ زندگی کے مقابلے میں، یہ ییتم خانہ اُس سے کہیں زیادہ بہتر محسوس ہوا۔
لیکن یقیناً یہاں معمول یا اوسط لحاظ سے تمام لوگ ایک جیسے معیار کے حامل نہیں۔ اس علاقے کی سیاست ہمارے مرحوم نو آبادیاتی دور کے پیدا کردہ جاگیرداروں ٹوانہ اور ان جیسے ہی دوسروں پرمشتمل ہے۔
ان کا یہاں پر مکمل اختیار و اثر ہے۔ میں نے لفظ 'ریوت' پہلی بار یہاں سنا۔ میں نے خالی سڑک پر موٹرسائیکل کھڑی کی اور اُن لوگوں کے پاس چلا گیا جو قریب میں مویشی چَرا رہے تھے۔
میں اُن سے یہ جننا چاہتا تھا کہ پولنگ والے دن وہ اپنے معمولاتِ زندگی کا انتظام کیسے کرتے ہیں اور اُن کے گھروں سے پولنگ اسٹیشن کتنی دور پڑتا ہے۔
وہ پُراعتماد لہجےمیں گویا ہوئے لیکن بیچ میں ہی لڑکھڑا گئے اور ہم نے اسی انداز سے گفتگو ختم کی جیسے سب اچھا ہے۔
اگرچہ شروع شروع میں تو میں نے اسے نظر انداز کیا لیکن بعد میں اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ کیمرے اور دیگر آلات لوگوں کو کنفیوز کردیتے ہیں لیکن یہاں ایسا بار بار ہورہا تھا۔
میں نور پُور تھل جارہا ہوں۔ یہ جہلم اور سندھ دریاؤں کے درمیان واقع صحرائے تھل کے وسط میں واقع علاقہ ہے۔
میں نے یہاں یو این ڈی پی کے تحت خواتین پولنگ اسٹاف کو دی گئی ایک تربیتی ورکشاپ میں شرکت کی، جسے اُسی تنظیم نے یہاں پر نافذ بھی کرنا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، آنے والے الیکشن میں ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ کس حلقے میں، خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کا شرح تناسب کیا رہا۔
اس طرح ووٹوں کی صنفی ووٹوں کی تقسیم ہوسکے گی۔ یہ آگے چل کر انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے بے مثل تفصیلات فراہم کرے گی، جس کی بنیاد پر خلا کو پُر کرنے کے لیے لائحہ عمل کی تیاری میں مدد مل سکے گی۔
الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کے بجائے، اُن پر تعینات خواتین پولنگ اسٹاف کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
ان گاؤں دیہاتوں کے متوسط طبقے کی اکثریت اسکول اساتذہ پر مشتمل ہے۔
جسے سادہ سی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، اس کی انجام دہی میں انہیں بڑی مشلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں نے ان اساتذہ سے بات چیت کی مگر آن ریکارڈ وہ صرف اچھی اچھی باتیں کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ شاید وہ پورا دن میرے لیے 'ان کیمرا' ہی رہا تھا۔ بہر حال، یہاں وہ سنیے جو اُن میں سے ایک نے کہا تھا۔
میں نے نور پُور تھل سے شیر گڑھ اور پھر وہاں سے مشرق میں بیلہ شہر، اس کے بعد پھر جنوب کا رخ کر کے اٹھ ہزاری پہنچنے کا پروگرام بنایا، جہاں مجھے رات بسر کرنا تھی۔
لیکن نور پُور سے نکلتے ہوئے میں نے ایک غلط موڑ کاٹا اور مشرق کی سمت گاؤں اینو سے بہت دور ہو گیا۔
یہ پوری سڑک بیابان صحرا کے بیچوں بیچ گذرتی ہے جہاں کوئی دوسرا مسافر بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان تمام خرابیوں میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اس راہ پر گوگل ارتھ کام نہیں کررہا تھا اور میرے آلات کی بیٹریاں بھی لبِ دم تھی۔