میاں منظور احمد وٹو

دیپالپور، ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے میاں منظور احمد وٹو...

دیپالپور، ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے میاں منظور احمد وٹو گذشتہ تین دہائیوں کی سیاست کا تجربہ رکھتے ہیں۔

وہ پہلی بار سن اُنیّسو تراسی میں اوکاڑہ ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے، اس کے بعد سن اُنیّسو پچاسی کے عام انتخاب میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ اُس وقت وہ صوبائی اسمبلی کے اسپیکربھی منتخب کیے گئے۔

سن اُنیّسو اٹھاسی میں ایک بارپھر بطور آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن اس کے فوراً بعد انہوں نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی جو اُس وقت اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا حصہ تھی۔ اس مرتبہ بھی وہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔

سن اُنیّسو ترانوے میں وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے تاہم انہوں نے صوبے میں رہنے کا فیصلہ کیا اور مسلسل تیسری بار اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔

سن اُنیّسو ترانوے کےانتخابات کے بعد، انہوں نے پیپلزپارٹی کی حمایت سے پاکستان مسلم لیگ نون کےغلام حیدر وائیں کی وزارتِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا اور بعد ازاں خود کو وزیِر اعلیٰ منتخب کرانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے ساتھ لگ بھگ سترہ ارکانِ اسمبلی تھے۔

سن اُنیّسو پچانوے میں اُن کا پی پی پی سے ساتھ چھوٹا اور اُس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حمایت سے مسلم لیگ جونیجو سے تعلق رکھنے والی ایک اور سیاسی شخصیت عارف نکئی وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنے۔

اپنے کزن حامد ناصر چھٹہ جومسلم لیگ جونیجوکے صدر بننے کے خواہشمند تھے، اُن سے علیحدگی کے بعد، اسی سال وٹو نے اپنا الگ دھڑا پاکستان مسلم لیگ جناح کے نام سے قائم کیا۔

سن اُنیّسو چھیانوے میں وہ اپنے قائم کردہ سیاسی دھڑے کے پلیٹ فارم سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اُس وقت انہیں بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اس حوالے سے قائم ایک مقدمے میں انہیں سزا بھی ہوئی۔

وٹو نے شروع کے چند ماہ جیل میں گذارے اور بعد ازاں، طبّی بنیادوں پر پنجاب اسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل ہوگئے۔ اسپتال میں اُن کے کمرے کو سب جیل قرار دے دیا گیا، جہاں وہ کم و بیش دو سال قید میں رہے۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں رہائی کے بعد، انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سابق صدر کے قریبی دوست تھے اور پرویز مشرف کے کہنے پر ہی انہوں نے اپنے سیاسی دھڑے مسلم لیگ جناح کو مسلم لیگ ق میں ضم کیا تھا۔

سن دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں وٹو نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے ایک سو چھیالس (اوکاڑہ چار) اور این اے ایک سو سینتالیس (اوکاڑہ پانچ) سے حصہ لیا اور دونوں پرکامیاب ہوئے۔

انہوں نے این اے ایک سو چھیالس کی نشست برقرار رکھی جبکہ خالی کردہ این اے ایک سو سینتالیس کی نشست پر ضمنی انتخابات میں ان کے صاحبزاے خرم جہانگیر نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور منتخب ہوئے۔

اکتوبر دو ہزار بارہ میں وٹو کو پی پی پی وسطی پنجاب کا صدر نامزد کیا گیا۔ وہ سن دو ہزار آٹھ تا تیرہ پر مشتمل، پی پی پی کی سربراہی میں قائم، وفاق کی مخلوط حکومت میں، وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر بھی رہے۔

وٹوکو ہر دور کے اقتدارمیں اپنی اہم جگہ بنانے کا ہُنر آتا ہے، جب انہیں پی پی پی نے وسطی پنجاب کے لیے، صوبائی سطح پر، پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے نامزد کیا تو یہ فیصلہ کئیوں کے لیے چونکا دینے والاتھا۔

تحقیق و تحریر: سحر بلوچ

ترجمہ: مختار آزاد