اقبال اور 'تصور اقبال' - 2
یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ یہاں دیکھئے
جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن سے ہماری پہلی ملاقات کا احوال دلچسپ ہے۔ ہم عام طور پر اس قماش کے افراد سے اضافی بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمیں دیوار سے سر ٹکرانے کا شوق قطعی طور پر نہیں ہے۔ اس روز ہم صرف اس وجہ سے یہ غلطی کر بیٹھے کیونکہ ہمیں ان صاحب کی سیاسی وابستگی کا علم نہیں تھا اور جس موضوع پر بحث ہوئی اس کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا، یعنی میرے پسندیدہ شعراء۔
ہم نے ادنیٰ سی کوشش کی کہ بات محسن نقوی، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، فیض صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب پر ختم کی جائے لیکن موصوف نے اعتراض کیا کہ آپ شہر اقبال سے تعلق رکھنے کے باوجود اقبال کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنی علمیت جھاڑنے کے چکر میں ان کو ایک پورا مضمون سنا دیا (جو کہ یہاں چھپ چکا ہے)۔ انہوں نے بہر حال ہماری تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا ایک مضمون شروع کر دیا جس کے مطابق اقبال سے بہتر شاعر تو شائد ہی کبھی دنیا کی تاریخ میں پیدا ہوا ہو، اور، خاص طور پر اقبال کی ’مسلم امہ‘ کے نام شاعری۔
اس طویل تقریر کے بعد ہم نے تو وہاں سے نکلنے کی ٹھانی لیکن اس بات پر ضرور سوچا کہ آخر اقبال میں ایسی کیا خاص بات ہے جو کسی اور میں نہیں؟
گزشتہ مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ اقبال پنجاب کے درمیانے طبقے کی سوچ اور امنگوں کے علم بردار شاعر تھے اور ان کی وفات کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ان کو ایک اہم کردار بنانے کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے لیا۔
گزشتہ کچھ دنوں میں ہم کراچی اور حیدر آباد میں آباد مہاجروں کی نمائندہ جماعت کے علاوہ پنجاب کے کاروباری طبقے کے مفادات کی نمائندہ جماعت کے اشتہاروں میں اقبال کا ذکر اور انکی تصویر دیکھ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی، جس کے سربراہ کو اقبال محض ایک ’مُلّا‘ سمجھتے تھے (بقول میاں محمد شفیع)، آج اقبال کے گن گاتے نہیں تھکتی۔
اسی طرح سونامی پارٹی، جس کے جیالے عقیدت کے میدان میں بھٹو صاحب کی جماعت کو بھی مات دے چکے ہیں، اقبال کا گاہے بہ گاہے ذکر کرتی ہے۔ امید ہے کہ جس طرح انہوں نے خان صاحب کا موازنہ جناح صاحب سے کیا ہے (حالانکہ اس تاریخی موازنے میں کم از کم دس غلطیاں ہیں)، ویسا موازنہ وہ اقبال کے ساتھ نہیں کریں گے حالانکہ اقبال کے پوتے انکی جماعت میں شامل ہیں۔ اور تو اور، تحریک طالبان والے ( جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کے باعث اقبال کے اصلی شاہین ہونے کا شرف رکھتے ہیں) بھی اپنے بیانات کا آغاز اقبال کے اشعار سے کرتے ہیں۔