ہمارا قومی ترانہ
صبح سویرے آنکھ کھلی تو میرا ذہن پتہ نہیں کیوں پاکستانی قومی ترانے کی طرف چلا گیا. بس ایک جھک سی لگ گئی. خیال ہی خیال میں لوگوں کے مختلف گروہوں کو قومی ترانہ گاتے ہوئے اس طرح دیکھنے لگی جیسے سنیما کے پردے پر کوئی بہت پرانی خاموش فلم دیکھ رہی ہوں.
ترانہ گانے والوں کے ہونٹ ہل تو رہے ہیں. پس منظر سے سپاٹ سی آواز میں ترانہ بج رہا ہے. لیکن چہروں پر نہ کوئی جوش ہے نہ جذبات. بالکل کٹھ پتلیوں کی طرح لگ رہے تھے وہ لوگ. یہ گروپ الگ الگ بچوں، بڑوں، بوڑھوں اور سیاست دانوں کےتھے.
سیاست دانوں اور حکمرانوں کے چہروں پر تو مسکراہٹ اور فتح پانے والے تاثرات تھے باقی عوام کے مرجھائے ہوئے زندگی سے دور چہرے.
کتنے سال گزرگئے یہ ترانہ گاتے گاتے؟ چھیاسٹھ سال. اللہ کی پناہ.
کیا کبھی ہم نے اس ترانے کو سمجھا بھی ہے. کبھی اس کے معنی پر بھی غور کیا ہے؟ یا واقعی ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ قول اور فعل میں فرق کرنا ضروری نہیں سمجھتے. ہم سب خوابوں کی دنیا میں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ کیوں ہم اپنے ملک 'اپنی قوم اور 'سلطنت' کو ساری دنیا کے مقابلے میں عالیشان اور تابناک سمجھتے ہیں؟
اگر ہمارے یقین کا مرکز یہی ہے اور ہماری منزل مراد یہی ہے تو ہم سب اتنے دکھی اور فکرمند کیوں ہیں؟ کب تک ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ صرف مسمان ہونے کے ناطے ہم اور قوموں سے بلند اور پاک ہیں. ہمارے قومی ترانے میں افیوں کی سی تاثیر کیوں آنے لگی ہے. ہمارے ذہنوں پر جمود کیوں طاری ہے. کب ہمیں ہوش آئیگا اور کب ہم جاگیں گے؟
ہاں سیاست دانوں اور موقع پرستوں پر بیشک یہ ترانہ بلکل فٹ آتا ہے. ان کی منزل مراد یہی تو ہے. ان کا عالیشان مستقبل یہیں تو ہے. اس ملک کے علاوہ انہیں دنیا میں اور کہاں ایسا موقع ملے گا جہاں وہ ملک کو اپنی سلطنت اور اس میں بسنے والوں کو اپنی رعایا سمجھ سکیں اور اپنا تخت و تاج اپنے بعد اپنے نااہل بچوں کے حوالے کر سکیں.
عجیب پریشانی سی محسوس ہونے لگی. اپنا قومی ترانہ سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ کیوں نہیں آتی؟ یہ ترانہ مکڑی کے جالے کی طرح کیوں میرے ذہن سے لپٹ گیا ہے؟ کیوں؟کیوں؟
آخر قومی ترانہ ہوتا کیا ہے، کیوں ہوتا ہے؟
اپنے آپ سے سوال کرنے لگی تو مکڑی کے جالے بھی آہستہ آہستہ صاف ہونے لگے. ذہن کچھ سوچنے کے قابل ہوا.
قومی ترانہ عام طور پر حب الوطنی کے بارے میں ایسے الفاظ کی تصویری تخلیق ہوتا ہے جسے موسیقی کے تانے بانے میں گوندھا جاتا ہے. جو اس قوم کے جذبات اور احساسات کو بیدار کرتا ہے .جواس ملک کی تاریخ ' روایات اور جدوجہد کی یاد تازہ کرتا ہے، پھر اس کی ستائش اور مدح سرائی کرتا ہے.
اکثر ممالک کے قومی ترانے سپاہیوں کے مارچ پر بجائی جانے والی موسیقی کی یاد دلاتے ہیں. چند حمدیہ گیت کے اسلوب میں اور چند اطاعت یا تعظیمی انداز کو اپنائے ہوئے ہیں. لاٹن امریکہ کے ممالک میں قومی ترانوں میں زیادہ تر غنائیہ رجحان نظر آتا ہے جبکہ چند ممالک نے اپنے قومی ترانوں کو بس اپنی خود ستائی اور نمایش کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے. ہمارا قومی ترانہ بھی اسی زمرے میں شامل ہے.
اگرچہ کہ قومی ترانے زیادہ تر اس ملک میں عام طور سے بولی جانے والی زبانوں میں ہی لکھے جاتے ہیں، تاہم سوئٹزرلینڈ میں اس کی چار مروجہ زبانوں، فرانسیسی، جرمن، رومنش اور اطالوی زبانوں میں چار ترانے لکھے گئے ہیں.
کینڈا کا قومی ترانہ فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں الگ الگ لکھا گا ہے اور خاص خاص مواقع پر دونوں ترانوں کے کچھ کچھ حصے ساتھ ساتھ بھی گائے جاتے ہیں.
نیوزی لینڈ میں دو قومی ترانے ہیں. ایک توروایتی 'اللہ کوئین کو محفوظ رکھے' اور دوسرے قومی ترانے میں دو بند ہیں جو دو مختلف زبانوں، انگریزی اور ماوری میں لکھے گئے ہیں. اس ترانے میں پہلے ماوری اور پھر انگریزی والا بند گایا جاتا ہے. دونوں کی لے تو ایک ہی ہے لیکن ایک دوسرے کا ترجمہ نہیں.
اسپین میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں. اس کا قومی ترانہ صرف موسیقی کی ترنگ میں ہے. اس ترنگ میں الفاظ کا کوئی کھیل نہیں. 2007 میں قومی ترانہ الفاظ کی شکل میں ڈھالنے کا تجربہ بھی ناکام رہا.
اسی شام اپنی روزمرہ چہل قدمی کے لیے قریبی پارک چلی گئی جہاں روز کی طرح اس شام بھی اپنی دوست شازیہ سے ملاقات ہو گئی. چہل قدمی کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کو مختف موضوعات پر بات کرنے کی عادت بھی تھی. میں نے کہا آج صبح سے میرے ذہن پر اپنا قومی ترانہ بری طرح چھایا ہوا ہے اور پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ ایک طرح کا مذاق ہے. بلکل مضحکہ خیز.
شازیہ بولیں آپ مذاق تو نہیں کر رہیں ہیں.
میں نے کہا اچھا ذرا اس ترانے کے معنی پر تو غور کیجئیے. کیا واقعی پاکستان کے تصور کے ساتھ یہ ترانہ میچ کرتا ہے. کیا ہم اور ہمارا ملک اتنا ہی اعلیٰ ہے کہ اب اس میں کسی تبدیلی ترقی اور خوشحالی کی کوئی گنجایش نہیں. کیا ہم غیر ممالک تو کجا اپنے ملک میں فخریہ سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہیں؟ کیا صرف پاکستان کے بن جانے سے ہمارا مقدر بن گیا، سنور گیا؟ کیا ہم واقعی خوش اور مطمئن ہیں؟ کتنا جامد ترانہ ہے. جسے کسی گلدان میں نہایت خوبصورت لیکن نقلی پھول سجے ہوئے ہوں.
توآپ کیا چاہتی ہیں، کیسا ترانہ ہونا چاہیے؟
بھئی قومی ترانہ تو ایسا ہونا چائیے جس میں وطن میں بسی ساری قوموں کی ترجمانی ہو.
اس میں وسعت ہونی چاہیے، شازیہ نے بات آگے بڑھای.
ہاں، میں نے کہا، توازن ارتقاء اور تسلسل بھی ہو.
بالکل، شازیہ بولیں. ترانہ ایسا ہو جو وجدان کی کیفیت طاری کرے. جس سے تخلیقی کام کرنے کی امنگ پیدا ہو. جس میں ربط ہو، ہم آہنگی ہو، جو منطقی ہو اورایک ذمّہ دار اور سمجھ بوجھ رکھنے والی قوم کو جمود سے نکال کر متحرک کرسکنے کی طاقت رکھتا ہو.
میں نے کہا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں لازمانیت ہو. ملک کے بدترین حالات میں بھی ایسا نہ لگے کہ یہ قومی ترانہ ہمارے لیے مذاق بن کر رہ گیا ہے. شازیہ بولیں.
اچھا تو مان گئیں کہ میں مذاق نہیں کر رہی تھی. بالکل مان گئی. لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ کیا قومی ترانے بدلے بھی جا سکتے ہیں؟
میری لغت میں لفظ 'ناممکن' متروک قرار دیا گیا ہے، میں نے جواب دیا.