نقطہ نظر

دیکھنے ہم بھی گئے تھے

سفید اور سرمئی بادلوں کے جھروکے سے ہماری ہری بھری زمین ایسی ہی لگ رہی تھی جیسے جنت ہی کا کوئی خوبصورت حصہ

کل رات ٹی وی دیکھتے دیکھتے آنکھ لگ گئی. جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں کوئی دلچسپ مباحثہ دیکھ رہی تھی. اس کے بعد یوں ہی کسی اور پروگرام کی تلاش میں اپنے ریموٹ کنٹرول کو ٹہلا رہی تھی کہ وہ ایک اردو چنیل پر آ رکا جس پر ایک اشتہار میں ایک مولوی صاحب نوٹنگھم میں ایک زیر تعمیر مسجد کے سلسلے میں چندے کے لیے اپیل کر رہے تھے. انکا آفر تھا کہ اس مسجد کے لیے ایک مصلّہ صرف دو سو پونڈ میں خرید کر جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کریں.

بس اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی اور میں نہ جانے کس طرح اڑتی اڑاتی ساتوں آسمانوں کو پار کر کے جنت کی تلاش میں فضاؤں میں تیرتی رہی. اچانک یوں ہوا کہ میری پرواز کو ایک غیر مرئی طاقت نے روک دیا.

کس کی تلاش ہے؟ غیر مرئی آواز نے سرگوشی کی.

سنا ہے جنت میں سیل لگی ہے اعلیٰ مقامات کی. نوٹنگھم کے ایک بڑے میاں نے ٹی وی پر اشتہار دیا ہوا ہے. میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ اتنا سرمایہ لگانا مناسب ہے کہ نہیں.

غیر مرئی آواز بولی؛ "ارے بی بی اوپر بڑی پریشانی ہے. زمین کے چند انسانوں نے جھوٹے کاغذات بنا کر جنت کو ہتھیانے کا قصد کا ہوا ہے. عام معصوم انسانوں کو جنت کے خواب دکھا کر انہیں ورغلا رہے ہیں".

"یا الله! یہ کیسے ہو رہا ہے بھائی؟" میں نے حیرت سے پوچھا.

"یہ مت پوچھو بی بی. اوپر بھی سخت پریشانی ہے کہ کیا سے کیا ہو گیا. اور دیکھو ان بڑے میاں کو تو چهوڑو ایک طرف. ذرا اس تعلیم یافتہ، مہذب بظاہر سمجھ بوجھ رکھنے والے خاندان کی خواتین کی طرف تو نظر ڈالو".

بس اتنا ہی سنا تھا کہ اچانک ہی ایک کھڑکی بادلوں میں شگاف کر کے کھل گئی. سفید اور سرمئی بادلوں کے جھروکے سے ہماری ہری بھری زمین ایسی ہی لگ رہی تھی جیسے جنت ہی کا کوئی خوبصورت سا حصہ ہو. "یہ میری زمین ہے!؟" میں نے حیرت سے پوچھا.

ہاں بی بی ٹھیک سمجھا تم نے. دور سے بڑی بھلی لگتی ہے. کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی. چلو تمہیں اس وقت ایک گھر میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہوں. بس بے فکر ہو کر اندر چلی جاؤ اور دیکھو کیا ہو رہا ہے. نہیں نہیں تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکے گا لیکن تم سب کچھ دیکھ اور سن سکو گی.

اچھا! میں نے حیرانی سے کہا اور گھر کے اندر داخل ہو گئی.

دیکھتی ہوں کہ اس گھر کا بڑا اچھا صاف ستھرا ماحول ہے. تعلیم یافتہ مہذب خواتین بڑے آرام سے بیٹھی دھیمی دھیمی آوازوں میں گفتگو کر رہی ہیں. خاتون خانہ نے اپنی مہمانوں کو بیس منٹ کے لیے اللہ کی عبادت کی دعوت دی. ساری خواتین نے میز پر رکھی ہوئی آیات کی کتابوں میں سے ایک ایک کتاب اٹھالی اور خاموشی کے ساتھ اللہ کا کلام پڑھنے لگیں. بڑا سکون تھا. عورتوں کے چہروں پر ایک خاموش خوشی تھی اور اطیمنان کا سمندر اپنی ہلکی ہلکی لہروں سے ان کے پورے وجود کو ایک تازگی عطا کر رہا تھا.

عبادت کے بعد ایک سنجیدہ سی خاتون نے ایمان اور یقین پر بہت ہی سلجھی ہوئی گفتگو کی. پھر چند لڑکیوں اور خواتین نے اللہ اور رسول کی حمد میں خوبصورت ترانے گاۓ.

اب تک تو سب کچھ بہت اچھی طرح سے ہو رہا تھا. میں نے ابھی سوال کے لئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ وہ غیر مرئی آواز بولی. "چپ چاپ دیکھتی رہو. ابھی دیکھو آگے کیا ہوتا ہے".

کیا دیکھتی ہوں کہ اچانک ایک خاتون جو اپنے حلیے سے اور تمام خواتین سے مختلف تھیں اس بڑے سے کمرے میں داخل ہوئیں.

خاتون خانہ نے بڑے اخلاق کےساتھ ان کی پذیرائی کی. ان اجنبی سی محترمہ نے سلام کے بعد اپنے دیر سے پہنچنے کی معافی مانگی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئیں. اجنبی سی اس لیے انہوں نے خاص طور پر اپنا بھیس کچھ اس طرح کا بنا رکھا تھا کہ انہیں نہ اپنا سمجھا جا سکتا تھا نہ پرایا.

شکل سے تو کوئی ایشیائی عورت لگتی تھیں. زبان ان کی اردو تھی. لیکن لباس سے یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ یہ کس خطّے سے تعلق رکھتی ہیں. خاتون خانہ نے ان اجنبی خاتون کو دعوت دی کہ وہ مہمانوں کو کچھ اچھی باتیں بتائیں. وہ اجنبی سی عورت بولیں کہ آج وہ صبر کے موضوع پر بات کریں گی.

اس کے بعد جو کہانی انہوں نے سنائی اس کا خلاصہ یوں تھا کہ ایک صحابی کی دو اولادیں دوران ضیافت فوت ہو گئیں. ان دونوں بچوں کی موت کی وجہ ضیافت کے لئے ان کے چہیتے جانور کی اچانک قربانی تھی. میزبان صحابی نے اپنے صبر کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ مہمان خاص یا کسی اور کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ اس ضیافت کی وجہ سے ان اس گھر میں دو ننھے بچوں کی موتیں واقع ہوئی ہیں اور وہ لاشیں انہوں نے ایک چادر میں چھپا کر رکھی ہوئی ہیں.

خیر ان اجنبی خاتون کے کہنے کے مطابق جب معزز مہمان کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنا معجزہ دکھایا اور بچوں کو نئی زندگی سے نوازا. وہ حاضرین محفل کو اسی طرح کے صبر کی تلقین کر رہی تھیں.

"کیا سمجھیں؟" غیر مرئی آواز نے پوچھا.

آج کے زمانے کے لیے کتنی غیر حقیقی مثال ہے؟ ان صاحبہ نے اپنے اس موضوع کو جس تناظر میں بیان کیا اس کی ہم کیونکر تقلید کر سکتے ہیں؟ اسی موضوع پر اگر پہلی والی تعلیم یافتہ خاتون ہی بات کرتیں تو کتنا اچھا ہوتا.

آخر ہم سمجھدارعورتیں کسی غیر تعلیم یافتہ خود ساختہ مذہبی عالم کا سہارا لینا کیوں ضروری سمجھتی ہیں. کیوں ان کو عالم و فاضل کے رتبے دیتی ہیں؟ کیا ہم نے اپنی سمجھ بوجھ کا ماتم کر لیا ہے. کیا ہمارے ذہن ماؤف ہو گئے ہیں؟

اب اس غیر مرئی آواز کی رہنمائی میں میرا رخ پاکستان کے ایک چیریٹی ادارے کی طرف ہو گیا تھا. غیر مرئی آواز بولی؛

"اس مہذب، تعلیم یافتہ، دنیا بھر میں بڑے بڑےعہدوں پر کام کرکے اچھے برے تجربے حاصل کرنے کے بعد اس ادارے کی بنیاد ڈالنے والوں کی طرف نظر ڈالو. ریٹائر ہو کر بظاہر غریبوں اور ضرورت مندوں لیکن دراصل خود اپنے مفاد کے لیے کیسے کیسے دھندے چلا رہے ہیں.

اپنے اداروں کے نام بھی انگریزی زبان میں رکھے ہوئے ہیں. اب اسی ادارے کو لے لو. نام رکھا ہے PLAIN. جس کا یوں تو اردو میں مطلب بنتا ہے 'ساده'. لیکن اگر اس کا حرف بہ حرف تجزیہ کیا جائے تو کچھ اور ہی مطلب بنتا ہے. جسے پانچ اراکین کی طرح اپنے پانچ اصولوں کا نچوڑ نکال کر یہ نام رکھا ہے. پرافٹ لونگ ایکٹیو ان ہیومین نٹیوز. جس کا مطلب بنتا ہے 'مفاد پرستی کے دلدادہ بے رحم قومی کارکرد'.

اپنے اثر ورسوخ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور بیرونی ممالک سے چندے حاصل کرتے ہیں. عورتوں پر مظالم اور جہالت کے خلاف اور مذہب کے نام پر عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آوازیں بلند کرتے ہیں. لیکن ان کے اپنے ارد گرد، ان کے اپنے خاندانوں کی بیواؤں اور کمزور عورتوں پر اپنے مفاد کے لیے شریعہ قانون کےاستعمال میں جس طرح کے جوڑ توڑ کرتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی. لمحہ بھر کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کے اپنے خاندان کی عورتیں بھی ان کی حمایت کی اتنی ہی حقدار ہیں جتنی کہ باہر کی مجبور و لاچار عورتیں. لیکن اپنے خاندان کی عورتوں کی حمایت کرنے میں تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے. خاص طور پر مالی.

"توبہ، توبہ!" میں نے کہا. "یہ کیسا ادارہ ہے بھائی؟" کیا ان کو کسی طرح درست نہیں کیا جا سکتا؟

"یہ کام تو بس زمین والے ہی کر سکتے ہیں". لوبھئی ہوئی چھٹی. ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ....

اب چلتے چلتے اور تماشے دیکھتے دیکھتے شام، رات اور پھر صبح ہونے کو آئی. میں بھی تھک چکی تھی. سوچا جلدی سے اپنے ٹھکانے پہنچ کر آرام کروں.

غیر مرئی آواز بولی، "اتنی جلدی تھک گئیں. ابھی ایک اور ایکٹ باقی رہ گیا ہے وہ بھی دیکھتی چلو".

اچانک اذان کی آواز سنائی دینے لگی. ابھی وہ اذان شروع ہی ہوئی تھی کہ دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں اذانوں کی آوازیں ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑ لگانے لگیں. پہلی اذان کی بھلی سی آواز دوسری تیسری اور چوتھی، پانچویں لاوڈ سپیکر کی آوازوں میں گڈ مڈ ہو گئی. اب پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ اذان ہو رہی ہے یا لاوڈ سپیکر کو آزمایا جا رہا ہے. یا پھر خدا نخواستہ شہر میں کچھ ہو ہوا گیا ہے.

غیر مرئی آواز نے اس بار تحکمانہ لہجے میں مجھے تنبیہ کی؛

'قبل اس کے کہ میری آواز ان لاوڈ سپیکروں کی آوازوں میں بلکل گم ہو جائے تم اسی وقت ہوش میں آجاؤ، نیند سے جاگو اور آسمانوں میں جنت کی تلاش کی بجائے یہی رقم کسی ضرورتمند طالبعلم کو دے دو. جہالت دور کرو. اسی میں تمھاری خوشی ہے اور اسی خوشی میں تمھاری جنت.'


شاہدہ غنی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔