نقطہ نظر

تاریخ کا سبق

مسلمان اجتہاد کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اجتہاد کے نظریے کو اس قدر مشروط کر دیتے ہیں کہ اس کی نفی ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی فرماتے ہیں کہ مذاہب کی تاریخ میں ابتدائی زمانوں کے بعد دو طرز کی تحریکیں عام ہوتی ہیں۔ ایک تحریک جدیدیت کی جانب مائل ہوتی ہے اور دوسری طرح کی تحریک احیاء کی للکار بلند کرتی ہے۔

جدیدیت کے حامی مذہب کو زمانے اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مذہب کی اہمیت باقی رہے جبکہ احیاء کے پیروکار جدیدیت کے اثرات کو رد کرتے ہوئے مذہب کو اسکی بنیاد کی جانب لے کر جانا چاہتے ہیں۔

یہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کے مقابلے میں اٹھتی ہیں اور عام طور پر جدیدیت کی تحریک کے عروج پانے پر احیاء کی تحریک جنم لیتی ہے۔

برصغیر میں سید احمد بریلوی کی سربراہی میں وہابی تحریک (جو کہ احیاء کی تحریک تھی) کا آغاز ہوا، مدرسہ دیو بند کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ دیو بند کے دار الافتاء نے تصویر اتروانے، لاؤڈ سپیکر کے استعمال، ریڈیو سننے، منی آرڈر سے پیسے بھیجنے، جدید دواؤں کے استعمال، بسکٹ اور کیک کھانے، ریل پر سفر کرنے، ریڈیو سننے، انگریزی لباس پہننے اور اس طرز کی دیگر حرکات کو غیر شرعی قرار دیا گیا۔

اس تحریک کے مقابلے میں بریلوی تحریک نے جنم لیا جو جدیدیت کی ایک شکل تھی اور اس تحریک کے اکابر نے تسلیم کیا کہ زمانی حالات اور بعض سماجی روایات مذہب سے متصادم نہیں ہیں۔

سر سید احمد خان اور ان کے بعد علامہ اقبال نے بھی جدیدیت کے موضوع پر کام کیا۔ سرسید نے قرآن کی سائنسی بنیادوں پر تفسیر لکھی اور اقبال نے ’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ کے نام سے خطبات کا سلسلہ شروع کیا۔ اصل خطبات انگریزی زبان میں دیے گئے تھے اور اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے اقبال کی زیر نگرانی کیا۔

ان خطبات میں علم، مذہب، خد ا کے تصور، انسانی خودی، دعا اور اجتہاد جیسے موضوعات پر جدید سائنس اور فلسفے کے تناظر میں روشنی ڈالی گئی تھی۔

اقبال نے تعارف میں لکھا؛

"یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہمارا فرض ہے کہ انسان کے ارتقاء پر بڑی احتیاط سے نظر رکھیں اور اس کی جانب بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں"۔

پاکستان کا آغاز سے ہی یہ مسئلہ رہا کہ نظریے اور تشخص کی بحث میں الجھ کر ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ہمیں ’ایک قومی نظریے‘ کی ضرورت تھی اور جناح صاحب کی 11 اگست والی تقریر اور اس کے مندرجات کو اس ضمن میں ایک بنیادی دستاویز سمجھا جا سکتا ہے۔

اس تقریر کو پاکستانی سیاست کی چند اہم شخصیتوں نے پہلے تو سنسر کرنے کی کوشش اور جب یہ مہم ناکام ہوئی تو شبیر احمد عثمانی نامی ملا کو میدان میں اتارا گیا۔ جناح صاحب کی تقریر کے بیس دن بعد جناب نے ایک جوابی اخباری بیان جاری کیا۔ جناح صاحب اپنی تقریر میں فرما چکے تھے کہ ”وقت گزرنے کے ساتھ (پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، ریاست کے شہری کے طور پر“۔

چنانچہ سیاست کے غیر جمہوریت پسند حلقوں کے مہرے کے طور پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے کہا؛ "میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو۔"

اسی مولوی شبیر عثمانی نے بعد میں لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر قرارداد مقاصد کا ڈول ڈالا۔ یہی قرارداد بعد ازاں 56'، 62' اور 73' کے آئین میں دیباچے کے طور پر شامل ہوئی۔

56' کے آئین میں پہلی دفعہ یہ شرط رکھی گئی کہ صدر مملکت ایک تحقیقی ادارہ قائم کریں گے جو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کام کرے گا۔

اس آئین پر عمل درآمد نہ ہو سکا لیکن 62' کے آئین میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت ایک اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کا مقصد موجودہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی تجاویز پیش کرنا ہے اور اس بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا کوئی قانون اسلامی اصولوں کی مخالفت تو نہیں کرتا۔

اس ادرے کے قیام کا مقصد جدیدیت کو فروغ دینا تھا لیکن سیاسی شخصیات اور سابق ججوں کی تقرری کی بدولت اس ادارے نے احیاء کی روش اختیار کرلی۔

اسلامی نظریاتی کونسل زمانی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں واپس ساتویں صدی میں لے کر جانا چاہتی ہے۔ ان کے اجتہاد کے طریقے پر تنقید اقبال کے خطبات کے اس اقتباس سے بہتر شائد نہیں ہو سکتی؛

"مسلمان اجتہاد کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اجتہاد کے نظریے کو اس قدر مشروط کر دیتے ہیں کہ اس کی نفی ہو جاتی ہے، یا اس کو حاصل کرنا کسی فرد کی دسترس میں نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے اس ملک میں عوامی سوچ فقہ پر کسی قسم کی تخلیقی روش کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور اگر اس روش کو اپنایا بھی گیا تو اس سے بہت سے لوگ ناراض ہو جائیں گے۔"

اقبال نے مزید فرمایا کہ؛

"آج کی مسلم لبرل نسلوں کا دعویٰ کہ انہیں اسلام کے بنیادی قانونی اصولوں کو اپنے زمانے کے تجربات کی روشنی میں ازسر نو جائزہ لینا ہے، بالکل بجا ہے۔ ہندوستان میں روایت پرستی اس قدر شدید ہے کہ جج صاحبان کے پاس صرف روایتی کتب سے استفادہ کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں عوام اپنے ارتقاء میں آگے کی طرف رواں ہیں، قانون اپنی جگہ ساکت ہے۔"

ہماری ناقص عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ فلسفہ، تاریخ اور جدید سائنسی علوم کو سمجھے بغیر اسلامی نظریاتی کونسل کس طرح اجتہاد کا علم بلند کیے ہوئے ہے؟

اس ادارے میں علماۓ دین اور ججوں کو مشاورت دینے کے لیے علماۓ سائنس، علماۓ معاشیات اور علماۓ فلسفہ کیوں موجود نہیں؟ اور ان علماء کی عدم موجودگی میں ان مضامین پر محض علماۓ دین کی رائے آخر کس طرح درست ہو سکتی ہے؟

کیا رِبا، سود، زنا، شہادت، کلوننگ اور انسانی اعضاء کی پیوند کاری پر فیصلہ سنانے کے لیے علم معاشیات، فوج داری قوانین اور علم طب کی مہارت ضروری نہیں ہونی چاہیے؟ کیا مذہبی معاملات پر علماۓ سائنس اور علماۓ معاشیات کے فتووں کی یہ اہمیت ہو سکتی ہے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران ہر فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور فرقوں کے آپس کے تعلقات تو یہ لوگ آج تک بہتر کر نہیں سکے، سائنس کی خدمت کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد کرنا ملک و قوم کے ساتھ ہی نہیں، ان لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔

گزشتہ دنوں زنا بالجبر کی صورت میں شہادت کے مسئلے پر کونسل نے جو موشگافی کی ہے، اس کے بعد کونسل کے ممبران، قانون ساز اسمبلی اور عوام کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

سن 1829 میں ہندوستان میں ستی کی رسم پر قانونی پابندی عائد کر دی گئی۔ ٹھیک ایک سو سال بعد ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں محمد علی جناح نامی وکیل نے نوعمر بچوں کی شادی پر پابندی کے متعلق قانون کا مسودہ پیش کیا تو اس عمل کی سخت مخالفت کی گئی۔ اور مخالفت کرنے والوں میں صرف مسلمان مولوی شامل تھے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ جو اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتا، اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔


عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔