ایک شام 'رضا علی عابدی' کے نام
بزم اردو لندن اور علیگڑھ مسلم ایسوسی ایشن نے ایک مشترکہ پروگرام رضا علی عابدی کے بارے میں سوچا اور ان دونوں اداروں کی اس سوچ کو عملی جامہ 25 مئی کو پہنایا گیا. علیگڑھ مسلم ایسوسی ایشن کے ایک سرگرم ممبرہلال فرید نے ایک انوکھے طریقے سے اس پروگرام کو مرتب کیا. یہ پروگرام انگریزی کے ایک سابقہ بےحد مقبول پروگرام 'دس از یور لائف' (This Is Your Life) کے اسٹائل میں پیش کیا گیا. پروگرام کا نام تھا 'ایک شام رضا علی عابدی کے نام'.
صحافیوں، ادیبوں اور براڈ کاسٹرز کی دنیا میں رضا علی عابدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. ان کے بارے میں پہلے بھی لکھا جا چکا ہے لیکن لندن کے اکثر ادارے جو اردو کی نشونما اور اس کی تدریج کے خواہاں ہیں جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں معروف اردو دانوں کی قابلیت کی ویسی قدر نہیں کی جاتی جتنی مغربی ممالک میں ان کے صحافیوں، ادیبوں اور براڈ کاسٹرز کو ملتی ہے.
چناچہ ہلال فرید نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کر کے چند ایسے لوگوں سے جو عابدی صاحب کے کاموں اور شخصیت سے واقفیت رکھتے ہیں گزارش کی کہ وہ عابدی صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں.
ہلال فرید نے اس سلسلے میں چار افراد سے پیغامات ان کے گھروں پر جا کر اپنے وڈیو کیمرے میں محفوظ کئے ساؤتھ لندن کے ایک علاقے ومبلڈن کے ڈریک ہال میں عابدی صاحب سے گفتگو کے درمیان دکھایا گیا.
ویڈیو پیغامات میں حصہ لینے والوں میں مصطفیٰ شہاب صاحب جو لندن میں کئی سالوں سے (SOFI) سوسائٹی آف فرینڈز انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں اور اردو کے نہایت کامیاب ادبی اور کلچرل پروگرام پیش کرتے ہیں اور عابدی صاحب کے گہرے دوستوں میں سے ہیں، دوسری شاہدہ غنی، تیسری شاہدہ احمد جو ایک مصنف ہیں اور جنہوں نے بی بی سی لندن میں عابدی صاحب کے ساتھ کام بھی کیا تھا، اور چوتھا نام ہے کیلاش بدھ وار صاحب کا جو بی بی سی لندن میں ہندی سیکشن کے انچارج تھے اور عابدی صاحب کے بہت اچھے دوست اور مداح بھی ہیں.
پروگرام کی ابتدا مہمانوں کے استقبال سے ہوئی جن میں اردو ادب اور زبان کے شائقین، مقامی ادیب اور شاعروں کے علاوہ ایک جانی پہچانی شخصیت یاورعبّاس صاحب کی بھی تھی.
یاورعبّاس صاحب بی بی سی اردو سروس کے قدیم ترین اسٹاف ہونے کے علاوہ ادبی دنیا میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں. مہمانوں کے مختصر سے استقبال کے بعد غالب ماجدی صاحب اورعقیل دانش صاحب نے عابدی صاحب کا استقبال منظوم عقیدت سے کیا. عقیل دانش صاحب کی یہ نظم عابدی صاحب کی اٹھارہ تصانیف کے عنوانوں پر مشتمل تھی. اس نظم کے پہلے اورآخری دو شعر کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو عقیدت سے بھر پور ہیں.
پہلا شعر؛ خوش نوا، خو ش فکر، خوش دل، خوش نظر ہیں عابدی زیست کے ہر زاوئیے میں معتبر ہیں عابدی
اور آخری؛ عابدی صاحب ہمارے خواب کی تعبیر ہیں دور حاضر میں محبت کی عجب تصویر ہیں
اسکے بعد وڈیو دکھائی گئی جس میں مصطفیٰ شہاب صاحب نے عابدی صاحب کی پرکشش شخصیت، انداز بیاں، آواز اور ان کے اردو ادب سے والہانہ شوق کا ذکر کیا.
دوسرا وڈیو پیغام راقم الحروف شاہدہ غنی کی طرف سے تھا؛
"آج سے تقریبن پندرہ یا بیس سال پہلے عابدی بھائی سے بزم اردو لندن کی محفلوں میں تعارف ہوا تھا. اسوقت ان کی شخصیت اور شہرت کا دبدبہ مجھ پر طار ی تھا. لیکن بزم اردو لندن کے پروگرامز کے سلسلے میں کئی بار عابدی بھائی سے بات چیت کرنے کا موقع ملا. ان کی گفتگو میں جو نرمی، خلوص اور شفقت میں نے پائی وہ ان کے ہم عصر معروف شخصیات میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے.
عابدی بھائی کی شخصیت، ان کی آواز اور گفتگو کے انداز کا ہی کمال ہے کہ لوگ صرف ان کا نام سن کر ہی ادبی یا غیر ادبی محفلوں میں بڑے شوق کے ساتھ شرکت کرنے چلے آتے ہیں.
عابدی بھائی کے اندر ابھی تک وہ تکبر، غرور یا بڑا پن پیدا نہیں ہوا ہے جو ان کے مداحوں اور ان کے درمیان فاصلے یا حدود قائم کر سکے. یہی وجہ ہے کہ لندن اور لندن سے باہر کی کئی ادبی تنظیمیں اپنے پروگرامز کو کامیاب بنانے کے لیے عابدی بھائی کے انکسارانہ مزاج کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور وہ بلا کسی عذر اور بہانے کے نہایت سادگی کے ساتھ دعوت قبول کر لیتے ہیں. عابدی بھائی کئی ادبی تنظیموں کی سربراہی بھی کرتے ہیں.
عابدی بھائی کی نشریاتی اور ادبی زندگی کا جائزہ اور مقررین بھی کریں گے میں آج ان کے ایک خاص ہنر کا ذکر کرنا چاہتی ہوں. عابدی بھائی ارہر کی کھچڑی بہت شوق اور اہتمام کے ساتھ بناتے ہیں اور اتنے ہی شوق اور اہتمام کے ساتھ اپنے مہمانوں کو کھلاتے بھی ہیں. سادے کھانوں کے بہت شوقین ہیں. دوسروں کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانوں کی تعریف بھی اس طرح بےساختہ کرتے ہیں جیسے کسی اچھے شاعر یا ادیب کی تخلیق کی تعریف کر رہے ہوں."
پھر شاہدہ نے سیدہ صالحہ کا لکھا ہوا ایک مضمون پڑھ کر سنایا. صالحہ آج کل امریکہ میں رہتی ہیں اور اخبار ڈان میں کتابوں پر تبصرے لکھتی ہیں.
'اگر سنہ 70 اور 80 کی دہائی میں آپ نے بی بی سی کی نشریات سنی ہونگی تو ناممکن ہے کہ آپ رضا علی عابدی کے نام اور ان کی آواز سے واقف نہ ہوں. بلکہ ان کی آواز ہی ان کے نام کی پہچان بن گئی تھی.
بی بی سی کے پروگرامز کے سلسلے میں وہ پاکستان کے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے تو راہ چلتے لوگ ان کی آواز سن کر چونک جاتے اور بڑے شوق سے پوچھتے آپ وہی تو نہیں جو بی بی سی سے پرگرام پیش کرتے ہیں.
اکثر ادبی محفلوں میں عابدی صاحب کو سننے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے اپنے تجربات سنائے اور ہم یہی سوچتے رہ جاتے کہ کاش کبھی وہ ہمارے گھر کی گلی سے گزرتے اور ہم بھی انہں اپنا مہمان بناتے.
عابدی صاحب نے بی بی سی اردو سروس سے نہایت مقبول پرگرامز پیش کیے جنھیں لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں. انہوں نے اپنے پروگرامز کتابی شکل میں بھی شایع کئے ہیں جو آج کے سامعین اور قارئیں دونوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں.
ان کی مشہور کتابوں میں جرنیلی سڑک، شیر دریا، کتب خانہ، ریل کہانی اور جہازی بھائی وغیرہ شامل ہیں. ابھی حال میں ان کی اور بھی کتابیں نغمہ گر، اخبار کی راتیں اور ریڈیو کے دن شایع ہوئی ہیں.
ان کی نادر کتاب 'کتابیں اپنے آباء کی' 2012 میں شائع ہوئی. میں اسے نادر اس لیے کہوں گی کہ اس کتاب کو خود عابدی صاحب نے 'سو کتابوں کی ایک کتاب' کہا ہے. یعنی اس میں تقریبا سو کتابوں کا تذکرہ ہے جو انیسویں صدی کے سو سالوں کے درمیان شائع ہوئیں. یہ کتاب بھی ان کے بی بی سی کے پروگراموں پر مبنی ہے.
عابدی صاحب نے اس کتاب کے دیباچے میں اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ کس طرح انہوں نے اس پروگرام کو پیش کیا تھا اور بی بی سی نے انہیں بارہ پروگراموں میں نمٹانے کی اجازت دی تھی. لیکن جب ایک بار یہ پروگرام شروع ہوا تو اس کی مقبولیت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. یہاں تک کہ بی بی سی نے جلد ہی انہیں اس بات کی کھلی اجازت دے دی کہ وہ اپنی مرضی سے جتنے چاہیں پروگرام چلائیں.
اس پروگرام کے سننے والوں میں ابن انشاء، آل احمد سرور اور ظفرالحسن جیسی شخصیات شامل تھیں. اور رام پور کے مولانا امتیاز علی خان عرشی مرحوم کے بارے میں عابدی صاحب لکھتے ہیں وہ نہ صرف مفید مشورے دیا کرتے بلکہ تحقیق کے لیے کار آمد اشارے بھی فراہم کرتے تھے.
'کتابیں اپنے آباء کی' ایک تحقیقاتی کتاب ہے جس میں 1803 سے 1899 کے دوران شایع ہونے والی ان سو کتابوں کا احوال درج ہے جو آج بھی لندن کی انڈیا لائبریری میں محفوظ ہیں.
یوں تو اس عرصے میں بے شمار کتابیں شایع ہوئی ہونگی لیکن عابدی صاحب نے اپنی صوابدید سے ان کتابوں کا انتخاب کیا ہے جو ہمیں اردو کی نشونماء کی پوری تاریخ سناتی ہیں. عابدی صاحب بتاتے ہیں کہ 1803 سے جب برصغیر میں اردو کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی تو وہاں سے چھپنے والی ہر کتاب کے کچھ نسخے سمندری جہازوں کے ذریعے برطانیہ پہنچا کر محفوظ کر دئیے جاتے تھے.
'کتابیں اپنے آباء کی' کو ایک منی انساائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے. عابدی صاحب نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. ایک حصہ نثری کتابوں کے بارے اور دوسرا شاعری کے بارے میں ہے.
دونوں حصّے تقریبا پچاس پچاس کتابوں کے احوال پر مشتمل ہیں خود کتاب کی فہرست مضامین میں مصنف کے ناموں کے ساتھ ساتھ چند ایک جملوں میں کتاب کے متن کا ذکر بھی کیا ہے. اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ یا تو کتاب شروع سے آخر تک پڑھ ڈالیں یا پھر موڈ اور دکچسپی کے مطابق جہاں سے دل چاہے پڑھنا شروع کردیں.
عابدی صاحب کاانداز بیان دلچسپ اور عبارت سلیس ہے. تحقیقاتی عنصر بھی اس میں شامل ہے. کتابوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس عہد کی اور باتیں بھی بیان کرتے ہیں جس سے کتاب کو ایک خاص تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے.
مَثَلاً حصہ نثر کی ابتداء بہادر علی حسینی کی کتاب 'اخلاق ہندی' سے شروع کرتے ہیں جو 1803 میں شایع ہوئی تھی. عابدی صاحب لکھتے ہیں؛
"جس وقت یہ کتاب چھاپے خانے سے نکلی غالب سات برس کے تھے اور میر تقی میر کی عمر کے سات سال باقی تھے اور ہماری زبان کا کوئی نام نہیں تھا. انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے قدم جما لیے تھے اور ہندوستان پر حکمرانی کے لیے ولایت سے نوجوان حکمران لائے جا رہے تھے. یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز حاکموں کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی سکھائی جائے. انہوں نے خود کو ہندوستان کے رنگ میں ڈھالنے کا رویہ اختیار کا تھا. چنانچہ انگلستان سے آنے والے افسروں کو ہندوستان کی زبان سکھانے کا فیصلہ کیا گیا اور سہولت کے لئے اس زبان کو ہندوستانی کا نام دیا گیا."
مختصر یہ کہ عابدی صاحب نے اپنی اس کتاب میں انیسویں صدی میں شائع ہونے والی جن کتابوں کا انتخاب کیا ہے ان سے اردو زبان کے تاریخی، سماجی اور ثقافتی ورثے پر روشنی پڑتی ہے. اور ادب کے طالب علموں کے لیے تو یہ کتاب معلومات کا انمول خزانہ ہے.
صالحہ کے اس مضمون کے بعد شاہدہ نے یہ تجویز پیش کی کہ 'کتابیں میرے آباء کی' ایک ایسی کتاب ہے جو اردو ادب میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے بہت کارآمد ہے اوران تمام تنظیموں اور اداروں سے گزارش کی جو ان کی تخلیقات اور ان کے پروگراموں میں شرکت سے مستفید ہوئے ہیں کہ عابدی صاحب کا نام برطانیہ کے لسٹ آف آنرز میں شامل کروانے کے لیے مناسب قدم اٹھائیں اور متعلقه یونیورسٹیوں سے رابطے کر کے عابدی صاحب کو اس کتاب کی تصنیف پر ڈاکٹریٹ کی آنریری ڈگری کے لیے نامزد کریں.
سامعین نے اس تجویز کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا.
شاہدہ احمد نے عابدی صاحب کی تصانیف کی ستائش تو کی ہی ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ بش ہاؤس میں نشریاتی پروگراموں کے سلسلے میں عابدی صاحب نے ان کی بہت ہمت افزائی کی تھی اور انہوں نے عابدی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے.
شاہدہ نے بتایا کہ عابدی صاحب کا برتاؤ اپنے جونئیر اسٹاف کے ساتھ بیحد رودارانہ اور پر شفقت ہوا کرتا تھا. انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کی. اکثر جونئیر اسٹاف کی غلطیوں اور جھوٹے بہانوں کو خندہ دلی کے ساتھ برداشت کر لیتے اور سہولت کے ساتھ انہیں آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت بھی کر دیتے.
انہوں نے عابدی صاحب کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ وہ بانسری بڑی اچھی بجاتے ہیں. اس ہنر کا علم پہلی بار اس وقت ہوا جب وہ بھی SOFI گروپ کے ساتھ کسی ٹؤر پر گئیں تھیں. اس گروپ میں عابدی صاحب بھی شامل تھے اور انہوں نے اچانک بانسری بجا کر اپنے ساتھیوں کو محظوظ کیا تھا.
آخری پیغام کیلاش بدھ وار صاحب کا تھا. وہ عابدی صاحب کی عام فہم سلیس اردو پررشک کرتے ہیں. وہ خود بی بی سی میں ہندی سیکشن کے انچارج تھے اور چاہتے تھے کہ لوگ ان کے پروگراموں میں بھی سلیس ہندی زبان استعمال کر کے اسے بھی عام فہم بنائیں.
جب انہوں نے اس بات کا تذکرہ عابدی صاحب سے کیا تو عابدی صاحب نے فرمایا کہ پھر ہندی ہندی نہیں رہیگی اردو بن جائیگی. کیلاش صاحب نے کہا کہ عابدی صاحب کے بی بی سی کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بش ہاوز میں بی بی سی اور سیز کے پروگرامز کی وہ دلکشی بھی ختم ہو گی اور ماحول بڑی حد تک بدل گیا. اب وہ دلچسپ شخصیات بھی نہیں رہیں.
ان ویڈیو پیغامات کے درمیان ہلال فرید عابدی صاحب سے گفتگو بھی کرتے رہے. بانسری، سادے کھانے اور کھچڑی بنانےکی بات نکلی تو ہلال فرید نے کہا کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک ماہر فن چاہے وہ کسی بھی میدان میں مہارت رکھتا ہو، اس میں اور کئی خوبیاں بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہیں.
باتوں باتوں میں عابدی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا بانسری وہ شوقیہ بجاتے تھے اور ان کے اپنے بھائیوں کو بھی موسیقی کے کسی نہ کسی آلات سے لگاؤ رہا ہے. پھر ہنستے ہوئے کہا جہاں تک کھانا بنانے کا تعلق ہے مغلئی کھانے بنانے کی تو کئی کتابیں بازار میں مل جاتی ہیں لیکن سادے پکوان کی نہیں. سوچتا ہوں سادے پکوان بنانے کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھ ڈالوں. دوران گفتگو انہوں نے اپنی بیگم ماہ طلعت کی کاوشوں کو بھی سراہا کہ ان کا ساتھ انہیں اس منزل تک پہنچا نے میں مددگار ثابت ہوا ہے.
ہلال فرید نے عابدی صاحب کی 1965 کی جنگ کی رپورٹوں کے بارے میں کہا کہ ان کی رپورٹیں صرف جنگ کا نقشہ ہی نہیں کھینچتی تھیں بلکہ جنگ کے ہولناک مناظر کے ساتھ ساتھ زندگی کے آثار کی تصویر کشی بھی کرتی ہیں.
اپنی رپورٹوں میں انہوں نے خالی گھروں میں آگ پر رکھی کیتلیوں میں ابلتے ہوے پانی کا بھی ذکر کیا ہے. جو ان کی حسّاس طبیعت کی عکاسی کرتا ہے. ہلال فرید نے گزارش کی کہ عابدی صاحب اپنے ریڈیو کے دور کے کچھ یاد گار قصّے سنائیں.
عابدی صاحب صاحب نے اپنی آنکھوں میں ایک چمک اور آواز میں ایک لہک کے ساتھ کہا کہ 1981 کی بات ہے ایک صاحب جن کا نام مشرف خان تھا، اور اجمیر شریف محلہ شور گراں، اجمیر میں رہتے تھے، گزارش کی کہ وہ بے اولاد ہیں اور چاہتے ہیں کہ بی بی سی اردو سروس سننے والوں سے دعا کروائے کہ اللہ انہیں اولاد سے نوازے.
مشرف خان کی یہ گزارش ریڈیو کے زریعے لاکھوں سامعین تک پہنچی. دعا کو قبولیت کا درجہ ملا اور مشرف خان نے بی بی سی ریڈیو سے رابطہ کر کے بتایا کہ انہیں اللہ نے ایک عدد بیٹی سے نوازا ہے اور انہوں نے اس کا نام بی بی سی کی ایک پریزنٹر کے نام پر رضوانہ رکھا ہے.
1982 میں عابدی صاحب نے اپنے ہندوستان کے دورے کے درمیان بڑی دقتوں سے مشرف خان کا گھر ڈھونڈ نکالا اور ان سے ملاقات کی. اس وقت وہ بچی رضوانہ 11 مہینے کی تھی اور رنگ گہرا سانولا تھا. عابدی صاحب اس کی شکل' آنکھوں میں پھیلے کاجل اور اس کے خوب صورت فراک کا یوں ذکر کر رہے تھے جسے وہ اب بھی ان کے سامنے بیٹھی ہو. اسوقت انہوں نے اسے پیار سے کلّو رانی کا خطاب دیا تھا.
اس واقعے کے تیس سال بعد بھی عابدی صاحب رضوانہ کو بھلا نہیں پائے تھے اور اس کے بارے میں جاننا چاہتے تھے. انہوں نے اسی پرانے پتے پر خط لکھا. کس طرح رضوانہ کا پتہ ملا یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے.
بہرحال رضوانہ نے عابدی صاحب کو لکھا کہ اب وہ کلّو نہیں رہیں بلکہ کافی گوری ہو گئیں ہیں. ان کی شادی ہو چکی ہے اور وہ خود بھی ایک خوب گوری سی 'کلّو رانی' کی ماں بن چکی ہیں.
رضوانہ کی بچپن کی تصویر جو عابدی صاحب نے 1982 میں اتاری تھی، اور تیس سال بعد جو تصویر رضوانہ نے اپنی کلّو رانی کے ساتھ اتروائی تھی وہ بھی پردے پر دکھائی گئی.
ایک اور قصّہ جس سے عابدی صاحب کے اردو پروگراموں کی بے پناہ مقبولیت کااندازہ ہوتا ہے وہ یہ کہ پچاس ساٹھ ہزار خطوط میں ایک خط کسی قبائلی علاقے سے عابدی صاحب کے نام آیا تھا. خط ٹوٹی پھوٹی اردو میں تحریر کیا ہوا تھا کہ یہ خط وہ اپنی ماں کی ہدایت پر لکھ رہا ہے. ماں پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن کہنا چاہتی تھی کہ 'عابدی کو لکھ دے کہ ہم اردو اچھی طرح بول نہیں سکتا. لیکن عابدی جو کچھ ریڈیو پر بولتا ہے وہ میں اچھی طرح سمجھ جاتا ہے'.