وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ -- فائل فوٹو
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ -- فائل فوٹو --.

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نامعلوم مدت کے لئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں۔ مدت کے تعین کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ ڈاکٹر مالک اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کس نوعیت کے رہیں گے۔

کچھ لوگ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے انتخاب کا کریڈٹ نو منتخب وزیر اعظم جناب نواز شریف کو دیتے ہیں جنہوں نے عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) سے وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے بجائے ایک مڈل کلاس بلوچ پارٹی کے مڈل کلاس رہنما کا انتخاب کرکے صوبے اور بلوچ عوام پر احسان کیا۔

کچھ ایسی ہی مثال خیبر پختونخوا کے بارے میں بھی دی جاتی ہے جہاں کی حکومت تحریک انصاف کے حوالے کرنے کے عمل کو نواز شریف کی جمہوریت پسندی سے تشبیہ دیا جاتا ہے حالانکہ ان کی پارٹی وہاں بھی ذرا سی کوشش کے بعد اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کر سکتی تھی۔

اس کے برعکس کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں چونکہ ہر بات میں کیڑے نکالنے اور منفی پہلو تلاش کرنے کی عادت ہے اس لئے ان کے خیال میں نواز شریف کے ان اقدامات کو کسی احسان یا جمہوریت پسندی کے بجائے ان کی سیاسی دانشمندی بلکہ دور اندیشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

اب جب کہ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں لہٰذا پاکستان ایک بار پھر نئے دور میں داخل ہونے جارہا ہے۔ دوسری طرف اگر صوبائی حکومتوں کی ترکیب پر نظر ڈالی جائے تو یہاں ہمیں ایک دلچسپ صورت حال نظر آئے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف پھر سے وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صرف کچھ مہینوں کی چھٹی پر گئے تھے، اس لئے آپ اسے ان کی سابقہ حکومت کا تسلسل بھی کہہ سکتے ہیں فرق اتنا ہے کہ اگلے سالوں میں ان کو مرکز کے ساتھ فالتو پنگے لینے اور خواہ مخواہ کی بیان بازی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ اس کے برعکس انہیں اپنے بڑے بھائی کی مکمل پشت پناہی حاصل رہے گی چنانچہ وہ بلا خوف و خطر اپنے نامکمل منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کا آغاز کر سکیں گے۔

پنجاب اس سے قبل بھی پاکستان کا سب سے پر امن صوبہ تھا لہٰذااب بھی قوی امید ہے کی اس کی یہ حیثیت برقرار رہے گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر تین صوبوں کی صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔

سندھ میں چونکہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور قائم علی شاہ بھی اپنی چھٹیاں گزار کے واپس آچکے ہیں اس لئے توقع کی جانی چاہئے کہ صوبے کے حالات جوں کے توں رہیں گے لیکن اگر مرکز سے محاذ آرائی کا سلسلہ چل نکلا تو سندھ کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سابقہ اتحادیوں کے درمیان رسہ کشی، بھتہ خوری، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرقتل و غارت پر اگر قابو نہیں پایا جا سکا تو بلا شبہ ان کی ساری ذمہ داری پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت پر ہی ڈالی جائے گی اور مرکزکے لئے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دینا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔

خیبر پختونخوا کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران یہ صوبہ بھی بد ترین دہشت گردی کا شکار رہا۔ سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ اس دوران کئی سینئر رہنماؤں سمیت اے این پی کے اپنے سینکڑوں کارکن بھی دہشت گردی کا شکار بنے۔

تحریک انصاف چونکہ طالبان کے لئے ہمیشہ سے نرم گوشہ رکھتی ہے اس لئے نواز شریف نے صوبے میں حکومت سازی کا موقع دے کر اسے یقیناً ایک مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بحالی سے متعلق اس امتحان میں کیسے سرخ رو ہوتی ہے؟ امید ہے کہ ہنگو میں ان کے نو منتخب ایم پی اے کے بہیمانہ قتل سے انہیں بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو ہی چکا ہوگا۔

بلوچستان کا مسئلہ یقیناَ دیگر صوبوں کی نسبت بہت زیادہ گھمبیر ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند گزشتہ آٹھ سالوں سے حکومت کے ساتھ بر سر پیکار ہیں جو صوبے میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بلوچوں کو اس بات کی بھی شکایت ہے کہ ان کے سینکڑوں افراد صرف اس بنیاد پر لاپتہ کئے جاچکے ہیں کیوں کہ وہ ریاستی اور حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، جبکہ آئے دن مختلف علاقوں سے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی تنصیبات پر حملے نہ ہوتے ہوں۔

اسی طرح ریاستی مخبر ہونے کے شبے میں بھی آئے دن لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران فرقہ واریت کی آڑ میں ہزارہ قوم کا جو قتل عام ہوا اسے بھی بعض لوگ بدامنی کے اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی قرار دیتے ہیں۔

اس لحاظ سے بلوچستان کی حکومت کو سب سے زیادہ سخت امتحانوں سے گزرنا ہوگا جبکہ نیشنل پارٹی کے وزیر اعلیٰ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے گورنر کی موجودگی میں یقینا نواز شریف اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور صوبے کے مسائل کے حل کی ذمہ داری بلوچستان کے قوم پرستوں کے کاندھوں پہ ڈال کر خود مکمل یکسوئی کے ساتھ قوم سے کئے گئے وعدوں اور اپنی پالیسیوں کی تکمیل کے لئے کام کر سکیں گے۔

وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کو ان تمام مسائل کا شدت سے ادراک ہے اس لئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ گمشدہ افراد کی مکمل بازیابی، مسخ شدہ لاشوں کے سلسلے کا تدارک، ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور صوبے سے فرقہ واریت کا خاتمہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہونگے۔

انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت چلائیں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ جس دن انہیں محسوس ہوا کہ وہ بااختیار نہیں تو اسی دن کرسی چھوڑ دیں گے۔

سوال یہ ہے کہ آخر انہیں یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

دراصل بلوچستان کے لوگوں خصوصاً سیاسی پارٹیوں کو شروع سے اس بات کی شکایت رہی ہے کہ صوبے پر ہمیشہ درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت رہی ہے حتیٰ کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو بھی کبھی حکمرانوں والے اختیارات حاصل نہیں رہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل تو یہ بات بڑے تواتر سے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے پیچھے مقتدر قوتوں کا ہاتھ ہے۔

مارچ میں دوبئی سے واپسی پر کراچی ائر پورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچ اور ہزارہ قوم کے قاتلوں کے پاؤں کے نشانات ایک ہی سمت جاتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج وہ اسمبلیوں کا حصہ ہونے کے بجائے الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان کی پارٹی نے ابھی تک بلوچستان اسمبلی کی کاروائی میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تیس جون کواس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اسمبلی میں بیٹھنا چاہئے یا نہیں؟

صوبے کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق حکمران نیشنل پارٹی کے نائب صدر حاصل بزنجو کا بیان بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے جو انہوں نے ایک غیر ملکی ادارے کو انٹرویو کے دوران دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گولیوں سے چھلنی لاشوں اور گمشدہ افراد سے متعلق ہم نے نواز شریف سے بات کی ہے اور ان پر واضح کردیا ہے کہ اب اس سلسلے کو بند ہونا چاہئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم باقاعدہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات کریں گے اور ان سے کہیں گے کہ اگر ہمیں حکومت چلانے دینا ہے تو ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

بلوچستان کے نئے حکمرانوں کے ان بیانات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے لئے آنے والا وقت مشکلات سے بھرپور ہوگا۔

پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا تلخ تجربہ رکھنے والی بلوچستانی عوام کو بجا طور پر اس بات کی توقع ہے کہ زیادہ تر درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے حکومتی اراکین؛

1. عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے،

2. صوبے کو ہر قسم کی بدامنی اور تعصب سے پاک کرنے کے لئے اپنی ہر ممکن صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے

3. حکومت اور ریاست کے خلاف بر سر پیکار جوانوں کی شکایتیں دور کرنے کے لئے مکمل اخلاص سے قدم آگے بڑھائیں گے

4. صوبے کو فرقہ واریت اور اس کے نام پر ہونے والی دہشت گردی سے پاک کرنے کی خاطر واضح اور ٹھوس اقدامات کریں گے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بلوچستان کو ترقی کے لحاظ سے ملک کے دیگر صوبوں کے برابر لانے اور عوام کے لئے روزگار، تعلیم اور صحت کی مکمل اور مفت فراہمی کے لئے ضروری ہوگا کہ ڈاکٹر مالک عوام سے کئے گئے اپنے ان وعدوں کی پاسداری کریں جن کے مطابق؛

"نہ وہ خود کرپشن کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے"۔

گزشتہ حکومت کی لوٹ مار اور اربوں کے فنڈ کی بندر بانٹ کا اگر نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی مل کر نوٹس لیں اور عوام کے پیسوں کو شیر مادر سمجھ کر نوش جان کرنے والوں اور بیرونی ممالک میں جائیدادیں بنانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں تو یہ نہ صرف صوبے کے عوام پر ایک بڑا احسان ہوگا بلکہ صوبے کی محرومیوں کا رونا رو کرصوبے کی عوام کا خون چوسنے والوں کے لئے بھی عبرت کا مقام ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین سے اس بات کی امید اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ گزشتہ حکومت کے جرائم میں وہ بھی برابر کے شریک رہے ہیں لیکن پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے اس بات کی توقع اس لئے کی جا سکتی ہے کیوں کہ پشتونخوا میپ وہ واحد پارٹی ہے جس نے رئیسانی حکومت کی کرپشن اور لوٹ مارکے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھائی۔

اب جب کہ "قدرت" نے بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کو اس بات کا موقع دے دیا ہے کہ وہ اگلے چند سالوں تک عوام کی تقدیر کے مالک بن کر رہیں تو اس موقع کو غنیمت جان کر ان کو چاہئے کہ وہ عوام کے مفادات کو سب سے مقدم رکھیں اور سابقہ حکومتوں کی پیروی کرنے کے بجائے صوبے کی صورت حال کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔

ڈاکٹر مالک اپنے آپ کو عوام کا حقیقی نمائندہ ثابت کر سکتے ہیں بشرطیکہ حکومت کے اختتام پر بھی ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہی ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Shan Ahmed Jun 12, 2013 01:29pm
The writer exhibit very natural points.
انور امجد Jun 12, 2013 10:01pm
بہت اچھّا تجزیہ ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ مسائل کا حل صرف جمہوری عمل سے ہی ممکن ہے۔ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں۔ سردار اختر مینگل صاحب کا الیکشن میں حصّہ لینے کا فیصلہ بہت دانشمندانہ تھا اور ان کو آئندہ بھی جمہوری عمل میں شامل رہنا چاہیے۔ الیکشن میں ان کی پارٹی کی ناکامی کی ایک وجہ ان کی خودساختہ جلاوتنی بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر اس سے دلبرداشتہ ہو کر وہ جمہوری عمل سے پھر دور ہو گئے تو اس سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہو گا۔ ان کو کوئی جزباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے ساستدان ہیں اور وہ اسمبلی میں بیٹھ کر صوبہ کی حالت بہتر بنانے میں سب سے زیادہ مدد کر سکتے ہیں۔
مڈل کلاس مالک | Changezi.net Aug 01, 2013 07:02pm
[…]           اب جب کہ “قدرت” نے بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کو اس بات کا موقع دے دیا ہے کہ وہ اگلے چند سالوں تک عوام کی تقدیر کے مالک بن کر رہیں تو اس موقع کو غنیمت جان کر ان کو چاہئے کہ وہ عوام کے مفادات کو سب سے مقدم رکھیں اور سابقہ حکومتوں کی پیروی کرنے کے بجائے صوبے کی صورت حال کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ڈاکٹر مالک اپنے آپ کو عوام کا حقیقی نمائندہ ثابت کر سکتے ہیں بشرطیکہ حکومت کے اختتام پر بھی ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہی ہو۔ […]