لیاری کی پھیلتی لڑائی
کراچی میں لیاری گینگ وار سے جُڑی قتل کی ایک اور لرزہ خیز واردات، قتل و غارت روکنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی پر زور دیتی ہے۔ یہ خونی سلسلہ شہر میں بلوچوں کے غالب اکثریتی علاقوں سے نکل کر اب متصل آبادیوں تک پھیل رہا ہے۔
پیر کو لیاری سے کچھ فاصلے پرواقع مواچھ گوٹھ میں پانچ افراد کے قتل سے متحارب جرائم پیشہ کے ان عزائم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنی لڑائی میں کہیں بھی کسی بھی حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ ناپسندیدہ، جیسا کہ یہ واقعہ ہے مگر ایسا پہلی بار ہوا کہ گینگ وار سے جُڑے جرائم پیشہ نے اپنے زیرِ اثر علاقوں سے باہر واردات کی ہو۔
شہر پہلے ہی متعدد اقسام کے تشدد سے کراہ رہا ہے، ایسے میں کراچی، مقامی جرائم پیشہ گروہوں کے روایتی میدان سے باہر، لڑائی کے اس چیلنج کا سامنا کرنے کے واسطے پوری طرح تیار نہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ دلیل بھی غیر منصفانہ ہوگی کہ اس طرح کا تشدد صرف شہر کے بعض علاقوں تک ہی محدود ہے۔
تمام مسائل کا خاتمہ ہونا چاہیے اور لیاری کراچی کا سب سے زیادہ گنجان آباد اور خطرناک علاقہ ہے، اسے امن کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کرچکے کہ اب تک سیکیورٹی آپریشن بہت زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکا اور ایک کمزور عدالتی نظام کے باعث اکثر جرائم پیشہ گروہ سزا سے بچ نکلتے ہیں لیکن یہ سیاسی جماعتوں بالخصوص جو لیاری کی نمائندگی کرتی ہیں، اُن کی بھی ایک بڑی ناکامی ہے کہ وہ علاقے کے اندر نسلی و لسانی ہم آہنگی کو یقینی نہیں بناسکیں۔
لیاری میں آئے روز کے خون خرابے سے بچنے کے لیے یہاں کے بے شمار مکینوں نے شہر، حتیٰ کے شہر سے باہر دیگر علاقوں میں بھی پناہ لے لی ہے۔
اور وہ حکام، جو تشدد کے خلاف کریک ڈاؤن میں امتیازی رویہ اختیار کرتے ہیں، انہوں نے بھی اب تک یہاں تادیبی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
ایک پسماندہ علاقے میں جرائم کی روک تھام اور ترقیاتی منصوبوں کوساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ لیاری کو بھی استثنا حاصل نہیں۔
لیاری میں جرائم کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ وہاں کے باشندوں کی تعلیم و صحت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ترقیاتی کام بھی ضروری ہیں۔ لیاری کو بنیادی ترقیاتی ڈھانچے کی فراہمی سے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔












لائیو ٹی وی