تاحال قانون سے بالاتر؟

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2014
پی ٹی آئی کے طرزعمل سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ وہ ترجیحی سلوک چاہتی ہے، جس کی قانون میں گنجائش نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے طرزعمل سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ وہ ترجیحی سلوک چاہتی ہے، جس کی قانون میں گنجائش نہیں ہے۔

آخر کیوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خود کو اس طرز میں پیش کرنا چاہتی ہے کہ جیسے یہ پارٹی قانون اور اس کے طریقہ کار کی پابند نہیں؟ چاہے یہ عمران خان کا نواز شریف کو باہر کرنے کے لیے ایسا انداز اپنانا ہو جو ہمارے آئین کی روح سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا ان کی سول نافرمانی کی کال (لوگوں کو ٹیکسز اور یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے پر ابھارنا)، ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ریاست اور حکومت کے درمیان، اور قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان فرق سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا پی ٹی آئی مسلم لیگ ن پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار قانون کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر کررہی ہے؟

چاہے پی ٹی آئی کے کارکنوں کا پختونخواہ میں نیٹو کنٹینرز کا راستہ روکنا ہو (جسے عدالتوں نے غیرقانونی قرار دیا)، یا ڈی چوک پر غیرقانونی اجتماع جبکہ اسے آبپارہ تک ہی احتجاج کی اجازت دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 225 کو نظرانداز کرتے ہوئے 2013 کے انتخابات کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے کا مطالبہ ہو، یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے آئینی طریقہ کار کو نہ ماننا، پارٹی کے اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ خلافِ قانون ترجیحی سلوک چاہتی ہے۔

گزشتہ ہفتوں ہم نے استعفوں کے معاملے پر بلاوجہ کی سیاسی سرگرمی دیکھی۔ ہوسکتا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی حکمران جماعت کے وفادار ہوں، اور ان کی اپنی انتخابی جیت بھی مشکوک ہو، مگر استعفوں کی تصدیق کے لیے ان کے موقف کو قانون کی حمایت حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 64 میں درج ہے کہ قومی اسمبلی کا کوئی بھی رکن استعفیٰ تحریری طور پر اسپیکر کے حوالے کرے گا۔ آرٹیکل 67 اسمبلی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ضابطے تیار کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس کے لیے 2007 میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف نیشنل اسمبلی نافذ کیا جاچکا ہے۔

شق 43(2) اسپیکر کو استعفے منظور کرنے کا پابند کرتی ہے "(ا) اگر کوئی رکن اپنا استعفی ذاتی طور پر اسپیکر کے حوالے کرے اور اسے آگاہ کرے کہ وہ رضاکارانہ طور پر مستعفی ہورہا ہے، جبکہ اسپیکر کو اس سے متضاد کوئی اطلاع یا معلومات حاصل نہ ہو یا (ب) اسپیکر کو استعفے کا خط کسی اور طریقے سے ملے، اور وہ اپنے فہم کے مطابق ضروری تحقیق، جو خود کی جائے، قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ کے ذریعے کی جائے، یا کسی بھی اور ذریعے/ادارے سے کرائی جائے، کے بعد مطمئن ہوجائے کہ استعفیٰ حقیقی ہے اور رضاکارانہ طور پر دیا گیا ہے۔

استعفوں کے لیے بنیادی ضرورت "رضاکارانہ اور حقیقی" ہے جسے پورا کیا جانا لازمی ہے۔ اپنے طریقہ کار کے ذریعے اسپیکر اس بات کی تسلی کرتا ہے کہ رکن نے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق استعفی دیا ہے اور وہ کسی کے دباﺅ میں نہیں۔ اگر پی ٹی آئی اراکین نے اپنے استعفے ذاتی حیثیت سے حوالے کیے ہوتے تو اسپیکر اس بات کی تصدیق اسی وقت کر سکتے تھے کہ استعفے اپنی مرضی سے دیے جارہے ہیں۔ لیکن کیونکہ پی ٹی آئی اراکین نے اپنے استعفے اجتماعی طور پر اسمبلی اسٹاف کے حوالے کیے تھے، تو اسپیکر کو 43(2)(b) کے تحت ان کے حقیقی اور رضاکارانہ ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا ہی تھی۔

آخر پی ٹی آئی اپنے اراکینِ قومی اسمبلی کو اسپیکر سے انفرادی طور پر مل کر استعفوں کی تصدیق کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی؟ شاہ محمود قریشی نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ ن 'چھانگا مانگا' سیاست (نوے کی دہائی کی بدترین ہارس ٹریڈنگ) کرنے میں مصروف ہے۔ اس اشارے کا مطلب یہ تھا کہ مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اسپیکر سے اجتماعی ملاقات اور ساتھیوں کا دباؤ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ممبران استعفیٰ دینے کے لیے رضامند ہیں۔ کیا یہ موقف یہ تصور کرنے کے لیے کافی نہیں کہ استعفے ممکنہ طور پر جبراً دیے جارہے ہیں؟

پی ٹی آئی کے کم از کم تین ممبرانِ قومی اسمبلی نے عوامی سطح پر مستعفی ہونے سے انکار کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ان 'باغیوں' کو اپنی پارٹی سے نکال پھینکا اور اسپیکر سے بھی کہا ہے کہ انہیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر اسمبلی سے باہر نکال دیں (حالانکہ اس طرح کی مخالفت کسی کی نااہلی کے لیے کافی نہیں)۔

ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ خیبر پختونخواہ اسمبلی کو چھوڑ کر باقی ممبران کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے عمران خان کے فیصلے کو پارٹی کے اندر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے آخر اسپیکر کیوں خود پر عائد قانونی ذمہ داری کے تحت یہ یقینی نہ بنائے کہ استعفے بغیر دباؤ کے دیے جارہے ہیں؟

لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ڈر ہے کہ اس کے ارکان قومی اسمبلی اسپیکر کے ساتھ تنہائی میں پانچ منٹ کی بات چیت کے دوران مستعفی ہونے کے موقف سے پیچھے نہ ہٹ جائیں، لیکن پارٹی پھر بھی چاہتی ہے کہ اسپیکر استعفوں کو رضاکارانہ قرار دیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک پارلیمانی نشست کس سے تعلق رکھتی ہے، ایک رکن سے یا پارٹی سے؟ اور پارٹی کے اندر خیالات اور عمل کرنے کی آزادی کس حد تک موجود ہے؟ ایک ایسا سیاسی کلچر جہاں اختلافِ رائے ناپسندیدہ ہو، اور پارٹی کے سربراہان آمرانہ انداز میں اراکین کو بھیڑوں کی طرح چلاتے ہوں۔ کیا پی ٹی آئی نے خود کو اس کلچر سے مختلف نہیں قرار دیا تھا؟

نوے کی دہائی کی ہارس ٹریڈنگ قابل مذمت ہے، مگر پارٹی سربراہان نے خود کی پیدا کی ہوئی اس خرابی کے لیے کیا حل سوچا؟ انہوں نے آئین میں آرٹیکل 63A متعارف کرایا جس کے تحت پارٹی سربراہ کے کردار کو ایک ڈکٹیٹر میں تبدیل کردیا گیا۔ اصل 63A میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی بھی پارٹی کے موقف کے خلاف ووٹ دے اسے پارلیمنٹ سے باہر نکال دینا چاہیے۔ شکر ہے کہ خیالات کی آزادی پر یہ جبر ایک حقیقی ڈکٹیٹر کو بھی بہت زیادہ معلوم ہوا، جس نے 63A میں ترمیم کرتے ہوئے اراکین پر عائد اس پابندی کو صرف مالیاتی بلوں اور وزیراعظم کو ہٹانے وغیرہ تک ہی محدود کردیا۔

عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو مستحکم ادارے کے تحت تشکیل دیا جائے گا جس کے اندر جمہوریت اور انتخابات ہوں گے، اور (انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم وغیرہ پر) فیصلہ سازی کی طاقت نچلی سطح تک دی جائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے صدر کو عمران خان کی رائے سے اختلاف پر نکال باہر کیا گیا۔ ہم نے ایم این ایز کو مستعفی نہ ہونے پر پارٹی سے باہر ہوتے دیکھا، ہم نے عمران خان کو یہ واضح کرتے ہوئے بھی دیکھا کہ اگلی بار وہ خود انتخابی ٹکٹ تقسیم کریں گے۔ کیا گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے ان کی سوچ کو تبدیل کردیا ہے اور پی ٹی آئی اب شخصیت پرستی کے تحت کام کررہی ہے؟

بے نظیر بھٹو ایک مقبول رہنماء تھیں اور پیپلزپارٹی ان کے گرد گھومتی تھی۔ مگر کیا یہ ان کا استحقاق تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو اپنے بیٹے کے لیے وراثت میں چھوڑ جاتیں؟ مسلم لیگ ن میں ن سے مراد نواز ہے، مگر کیا اس سے انہیں حق مل گیا ہے کہ وہ ریاستی عہدے اور دفاتر اپنے خاندان کے اراکین اور عوامی فنڈز اپنی بیٹی کے کنٹرول میں دے سکیں؟ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں میں اختیارات اوپری سطح تک محدود ہیں۔ خوشامدی لوگ اوپر پہنچ پاتے ہیں، جبکہ آزاد ذہنوں اور رائے سے اختلاف کرنے والوں کو کونے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

اگر پی ٹی آئی ایک فرد عمران خان کی شخصیت سے زیادہ بڑی ہونا چاہتی ہے، اور ان یک شخصی جماعتوں سے جن کی یہ مخالفت کرتی رہی ہے، مختلف ہونا چاہتی ہے تو اسے انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان درست تناسب قائم کرنا ہوگا، اور ایسا کلچر اپنانا ہوگا جس میں لیڈر کے موقف پر تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا نہ جائے۔

انگلش میں پڑھیں


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

islamabadian Nov 29, 2014 01:48am
bohat zaberdsat