'جس دن نواز، شہباز گرفتار ہوئے، گرفتاری دے دوں گا'

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2014
عوامی تحریک کے قائد وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں—۔اسکرین گریب
عوامی تحریک کے قائد وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں—۔اسکرین گریب
ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور پہنچنے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ہوئے—۔اسکرین گریب
ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور پہنچنے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ہوئے—۔اسکرین گریب
کارکنوں کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کا پرجوش استقبال کیا گیا—۔اسکرین گریب
کارکنوں کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کا پرجوش استقبال کیا گیا—۔اسکرین گریب

لاہور : پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ جس دن وزیراعظم نواز شریف اور وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف گرفتار ہوئے، اس دن خود گرفتاری دے دوں گا۔

وطن آمد کے بعد لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ 'حکومت میں ہمت ہے تو مجھے گرفتارکرلے'۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی کو انصاف کا قتل سمجھتے ہیں۔

'سانحہ ماڈل ٹاؤن کےاوپر یہ ایک اور سانحہ ہے، جس میں انصاف ذبح ہورہا ہے'۔

انھون نے کہا کہ '23 جون کو جب میری پاکستان آمد ہوئی تھی تواس دن کارکنوں کا خون ہوا تھا اور آج انصاف کا خون ہوا ہے'۔

'جے آئی ٹی کی تشکیل عدل وانصاف کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے'۔

طاہر القادری نے کہا کہ 'دھرنے کے دوران جتنے مذاکرات ہوئے،جن اصولوں پر حکومت نے زبانی طور پر اتفاق کرلیا تھا، اس کی بھی صریح خلاف ورزی ہوئی ہے اوروہ ہر چیز سے مکر گئے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جرگہ کی تجاویز کے مطابق جے آئی ٹی میں پنجاب کو شامل نہیں کیا جائے گا، جبکہ ہماری تجویز تھی کہ جے آئی ٹی صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگوں پرمشتمل ہو، کیوں کہ اس صوبے پر وفاقی حکومت کا عمل دخل نہیں ہے'۔

'ہماری شرط تھی کہ جے آئی ٹی میں پنجاب پولیس کا افسر قبول نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ پنجاب پولویس سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قاتل ہے'۔

'قاتل خود اپنی تفتیش کیسے کرسکتا ہے؟'

طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ 'ہم متاثرہ فریق ہیں کیونکہ ہمارےلوگ شہید ہوئے اور 12 گھنٹے ہونے والی قتل وغارت کی رپورٹ ہمیں دی جانی چاہیےتھی'۔

انھوں نے سوال کیا کہ 'بتایا جائے جےآئی ٹی کی رپورٹ کوکیوں چھپایا گیا؟'

' رپورٹ چھپانا اس بات کا ثبوت ہےکہ حکمران قاتل اورمجرم قرارپاچکے، لیکن ایسے اوچھے ہتھکنڈوں اور انصاف کے قتل سے وہ کبھی بری نہیں ہوں گے'۔

طاہر القادری نے دعویٰ کیا کہ 'جےآئی ٹی دراصل قاتلوں اورمنصوبہ سازوں کو کلین چٹ دینے کے لیے بنائی گئی'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'ہم شہداء کے خون سے کسی کو دھوکہ دہی نہیں کرنے دیں گے'۔

طاہر القادری نے میڈیا کے بھرپور تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'کون گولیاں چلارہا ہے اور کون قاتل ہے، سب دنیا کےسامنے ہے'۔


ڈاکٹرطاہرالقادری کی پاکستان آمد


پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری جمعرات کو وطن آمد کے بعد لاہور داتا دربار پر حاضری دے کر منہاج القرآن سیکریٹریٹ پہنچے۔

وطن واپسی پر کارکنان کی بڑی تعداد نے طاہر القادری کا استقبال کیا جبکہ اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق طاہر القادری نے لنک روڈ، ہربنس پورہ، مغل پورہ اور مال روڈ سے ہوتے ہوئے داتا دربار پر حاضری دی۔

طاہر القادری کا وفد داتا دربار پر حاضری کے بعد منہاج القرآن سیکریٹریٹ، ماڈل ٹاؤن پہنچا۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے موقع پرعوامی تحریک کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ ایئرپورٹ کے ارد گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

ایس پی کینٹ سمیت تین ڈی ایس پی اور 200 دیگر اہلکار سیکیورٹی پر مامور تھے۔

اس سے قبل پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا طیارہ لاہور ایئر پورٹ پر پہنچا تو انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کارکنان پرامن رہیں، فتح حق کی ہوگی'۔

عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ 'ہماری جدوجہد رکی نہیں جاری ہے، پنجاب اور بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت ہے اس لیے اعتماد نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے قاتلوں کو تحفظ دینے کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی، جس جے آئی ٹی میں پنجاب پولیس کا افسر شامل ہو وہ قابل قبول نہیں، قاتلوں کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'شہیدوں کے خون کا بدلہ قانون کے مطابق لیں گے'۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میں پی اے ٹی کا دھرنا ختم کرنے کے کچھ روز بیرون ملک چلے گئے تھے ۔

پولیس ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی لاہور آمد پر دہشت گردی کا خطرہ ہے، جس کے باعث انہیں ریلی کی صورت میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

تاہم عوامی تحریک نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'طاہرالقادری کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے'۔

'اگر کوئی حادثہ ہوا تو اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہوگی'۔

تبصرے (0) بند ہیں