’ماضی میں فوجی عدالتیں آئیں اور حکومت کو جانا پڑا‘

30 دسمبر 2014
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی اپنی جماعت کے ایک اور سینئر رہنما مخدوم امن فہیم کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی اپنی جماعت کے ایک اور سینئر رہنما مخدوم امن فہیم کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے کے کچھ دن بعد ہی سینیٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔

پیر کو سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی فوجی عدالتوں کے قیام کے مخالفین میں سرفہرست رہے اور کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس ایک ایسے وقت میں فوجی عدالتوں کے قیام کا کوئی جواز نہیں جب ملک کے مختلف علاقوں میں شہری انتظامیہ کی مدد کے لیے پہلے ہی فوج کو طلب کیا جا چکا ہے۔

رضا ربانی نے تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 1977 اور 1998 میں جب کبھی بھی فوجی عدالتیں قائم کی گئیں، انہیں غیر آئینی قرار دیا گیا، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ دونوں ہی مواقعوں پر وزیر اعظم کو ان کے دفتر سے برطرف کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کا کوئی ذکر نہیں اور اس کے قیام کے لیے آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو گی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی منطقوں سے یہ تاثر جاتا ہے کہ جمہوری سیاست ناکام ہو چکی ہے اور اسے تبدیل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ثبوت کے معیارات مختلف ہوتے ہیں جہاں ملزم کو کم تحفظ حاصل ہوتا ہے اور جب نسبتاً مختلف قسم کے نظام شہری ماحول پر لاگو کیے جاتے ہیں تو اس سے انصاف کی فراہمی کا عمل متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک لاپتہ افراد کے مقدمے میں یہ سب پہلے ہی دیکھ چکا ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ فوجی عدالتیں قائم کر کے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا اور ایڈ آف سول ایکٹ 2011 کے تحت فاٹا میں فوج کو حاصل اختیارات کی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ اور تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی وسیع تر اختیارات دیے گئے ہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کے بجائے ہمیں قانونی نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے مذہب کا استعمال، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو جواب دینے کے لیے مذہب کے استعمال اور ریاست کی جانب سے مسلح انتہا پسندوں کو منظم کرنے میں مدد دینا، یہ وہ عوامل ہیں جس سے ہمارے دشمن پیدا ہوئے۔

انہوں نے ایک بار پھر ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیا کے دور میں ریاست افغان جہاد کا حصہ بن گئی اور کرائے جنگجوؤں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں، عرب چیچن اور ازبکوں کو ملک میں آںے کی اجازت دی گئی اور ریاست انہیں ان کے ملک واپس بھیجنے میں ناکام رہی۔

سینیٹر نے کہا کہ ایسے لوگوں کو بعد میں شہری اور فوجی خدمات کے ساتھ ساتھ سیاسی آلائے کار بننے کی اجازت بھی دی گئی۔

سینیٹر رضا ربانی نے جیسے ہی گفتگو ختم کی تو پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر یقین دہانی کرائی کہ فوجی عدالتیں بنیادی حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالے گی۔

ایم کیو ایم کے رہنما بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی فوجی عدالتوں کے غلط استعمال کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانہ کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے اس حوالے سے آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم سے بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچے جبکہ اس بات کا نتیجہ اخذ کرنے کا وقت آ چکا ہے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہو سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں