ڈاکٹر سیمی جمالی: ایک باہمت خاتون

ڈاکٹر جمالی ایک انتہائی مشکل جگہ پر بھی بہترین کردار ادا کر رہی ہیں — فوٹو نادر صدیقی
ڈاکٹر جمالی ایک انتہائی مشکل جگہ پر بھی بہترین کردار ادا کر رہی ہیں — فوٹو نادر صدیقی

بھلے ہی حالات نارمل ہوں، جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ہر وقت افراتفری رہتی ہے، اور کیونکہ کراچی میں تشدد اور حادثات کوئی نئی بات نہیں، اس لیے یہ وارڈ ملک کا مصروف ترین وارڈ ہے۔

اسٹریچروں پر آتے مریضوں، ایدھی ایمبولینسوں کے سائرنوں، اور پریشان لواحقین کے درمیان ڈاکٹر اور نرسیں آرام سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی سرکاری ہسپتال کے بارے میں ہم سب کے تصورات ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔

وارڈ اور آلات نہایت صاف ستھرے ہیں، چادریں دھلی ہوئی ہیں، اٹینڈنٹس مستعد ہیں، اور افراتفری میں بھی ہر چیز با ترتیب لگتی ہے۔ درمیان میں ایک خاتون ہیں جو ڈاکٹروں، مریضوں، اور ان کے رشتے داروں کے خدشات و شکایات سنتی ہیں اور حل کے لیے فوراً ہدایات جاری کرتی ہیں۔ یہ ڈاکٹر سیمی جمالی ہیں، ایک مضبوط خاتون جو مزید تصورات کو غلط ثابت کرتی ہیں۔

6 سال کی عمر میں ڈاکٹر جمالی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ یہ ان کی والدہ کی آخری خواہش تھی، اور وہ یہ خواہش ہر قیمت پر پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔ ان کا سفر انہیں نوابشاہ لے گیا جہاں انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، اور پھر جناح ہسپتال میں ڈیوٹی سنبھال لی۔ یہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سرکاری ادارے کے لیے کام کریں۔

ہسپتال کے لیے کام شروع کرتے ہی انہوں نے ایمرجنسی وارڈ کو بدل ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

'ہم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروعات کی، اور پھر ہم نے اس کام کو بڑی چیزوں تک پھیلایا۔ مثال کے طور پر ہم نے عالمی ادارہ صحت کے قوانین کا نفاذ کیا، ویکسین کے لیے ان کا طریقہ کار اپنایا، سہولتیں بہتر بنانے کے لیے فنڈز اکٹھے کیے، اور آہستہ آہستہ ہم وہ تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہے جو لانا چاہتے تھے۔'

جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے کے اپنے مسائل ہیں، شہر میں جاری پرتشدد کارروائیاں کبھی کبھی ہسپتال کے دروازے سے اندر بھی آجاتی ہیں۔

ڈاکٹر جمالی بتاتی ہیں کہ اکثر مشتعل افراد اسلحہ لے کر اندر گھس آتے ہیں، اور وہ کسی پر بھی حملہ کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔ 'ہم نے یہاں پر دہشتگرد حملے بھی جھیلے ہیں، ہم لوگ ان حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ ہم لوگ ڈاکٹر ہیں اور ہم یہی کام کرتے ہیں۔ ہمیں دہشتگردوں سے نمٹنا نہیں آتا۔'

فروری 2010 میں جس دن ہسپتال کے دروازے پر بم دھماکہ ہوا، تو اس دن ڈاکٹر جمالی ڈیوٹی پر تھیں۔

'ہماری زندگیاں ہمیشہ خطرے میں رہتی ہیں، اور ہم نے اکثر اپنے ساتھیوں کو اپنی جانیں گنواتے دیکھا ہے۔'

وہ ہسپتال میں ایک گرینیڈ حملے میں زخمی ہوگئی تھیں، لیکن اس سے ان کے اور ان جیسے دیگر بہادر ڈاکٹروں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔

'یہ آسان کام نہیں ہے، یہ 24 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے، لیکن جب کوئی شخص اپنے کام سے وابستہ ہو جائے، تو یہ سب کچھ بامعنی لگنے لگتا ہے۔'

مزے کی بات یہ ہے کہ دہشتگرد حملوں اور تشدد سے نہ ڈرنے والی ڈاکٹر سیمی جمالی چھپکلیوں سے ڈرتی ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا، 'مجھے ویسے تو زیادہ چیزوں سے ڈر نہیں لگتا، لیکن چھپکلیوں سے بہت لگتا ہے۔'

اس طرح کی جاب میں انسان کو ہمیشہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ڈاکٹر جمالی کو بھی اکثر اوقات اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے کام پر موجود رہنا پڑتا ہے۔

'حال ہی میں میرے چھوٹے بیٹے نے مجھ سے کہا ہے کہ میں گھر پر رہا کروں۔ وہ جب بھی ٹی وی پر بریکنگ نیوز دیکھتا ہے، تو اس پر اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شہر میں ہونے والے واقعات کا میرے کام پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔'

جیسے جیسے دن آگے بڑھتا ہے، تو میڈیا کے نمائندے ان سے تازہ ترین واقعے کے ہلاک شدگان و زخمیوں کے بارے میں بیانات لینا چاہتے ہیں، لواحقین اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں، اور اس سب کے دوران ڈاکٹر جمالی کسی بھی قسم کی ٹینشن کے بغیر سب لوگوں کی خبر گیری کرتی ہیں، اور ہمیں کہتی ہیں:

'مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک عورت ہوں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں جو کر رہی ہوں، وہ کرنا کسی مرد کے لیے بھی مشکل ہو گا۔ مجھے اکثر اوقات تشدد سے اس لیے بچ جاتی ہوں، کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ شاید مرد اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔ 'اگر مجھے موقع ملا تو میں ایک بار پھر ڈاکٹر بننا پسند کروں گی اور اپنے کام کو اس سے بہتر بنانے کی کوشش کروں گی۔ میں نے اپنے اندر کچھ کمی دیکھی ہے، اور اگر اگلا موقع ملا تو میں ان خامیوں اور کمزوریوں سے بچنے کی کوشش کروں گی۔'

ڈاکٹر جمالی ایک انتہائی مشکل جگہ پر بہترین قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگلی دفعہ اگر آپ جائیں، تو یہ ضرور دیکھیے گا کہ وہ آپ کا کون سا تصور غلط ثابت کرتی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 18 جنوری 2015 کو شائع ہوا۔

موبائل فون استعمال کر رہے ہیں؟ ڈان کی موبائل ایپلی کیشن حاصل کیجیے: ایپل اسٹور | گوگل پلے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں