راولپنڈی کے علاقے صدر کےقلب میں آدم جی روڈ پر واقع ڈیڑھ سو سال پرانا پونچھ ہاؤس بادشاہوں، شہزادوں کیلئے آرام گاہ، آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم کے دفتر اور گھر حتی کہ فوجی عدالتوں کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔

پونچھ کے حکمران راجا موتی سنگھ نے اس عمارت کو دوسرے راجاؤں کی آرام گاہ کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔

مرکزی ہال میں خالصتاً کشمیری انداز میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے بنی بالکنیاں، جہاں سے خواتین ہال میں ہونے والی پرفارمنس سے محضوظ ہوتی تھیں۔
مرکزی ہال میں خالصتاً کشمیری انداز میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے بنی بالکنیاں، جہاں سے خواتین ہال میں ہونے والی پرفارمنس سے محضوظ ہوتی تھیں۔
1914 میں جب پونچھ ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ بنا تو یہ عمارت کشمیر کے حکمران مہاراجا گلاب سنگھ کی جائیداد بن گئی۔

قیام پاکستان کے بعد 1950 کی دہائی میں یہ عمارت آزاد جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور صدر و وزیر اعظم کے کیمپ آفس کے طور پر استعمال ہونے لگی۔

ماضی میں بجلی سے محروم عمارت میں تنگ راستوں کو روشن کرنے کیلئے لکڑی کی چھتوں میں روشن دان اور کھڑکیاں نصب کی گئیں۔
ماضی میں بجلی سے محروم عمارت میں تنگ راستوں کو روشن کرنے کیلئے لکڑی کی چھتوں میں روشن دان اور کھڑکیاں نصب کی گئیں۔
سابق ضلعی ناظم راجا طارق کیانی نے بتایا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں مارشل لاء نافذ کیا تو پونچھ ہاؤس میں فوجی عدالتیں لگائی جانے لگیں، جہاں مشہور سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف سماعت ہوتی تھی۔

ماہر معماروں کی کشمیری لکڑی پر پیچدہ کاری گری سے مزین یہ سحر انگیز عمارت یورپی اور ہندوستانی فن تعمیر کا دل کش ملاپ تھی۔

خواتین کیلئے مختص حصہ کی بیرونی دیوار  اور  عمارت کے دو حصوں کو ملانےوالے تنگ راستہ کا دروازہ۔
خواتین کیلئے مختص حصہ کی بیرونی دیوار اور عمارت کے دو حصوں کو ملانےوالے تنگ راستہ کا دروازہ۔
عمارت میں خواتین اور مردوں کی رہائش کیلئے علیحدہ علیحدہ کمرے اور دلان بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاراجا مرکزی ہال میں عدالتیں اور بڑی تقریبات منعقد کرتے۔

عمارت کی دیواریں خوبصورت نقش کاری اور خوبصورتی سے بنائی لکڑی کی بنی بالکنیوں سے مزین ہیں۔

مہاراجا کا اپنا چیمبرعمارت کی بالائی منزل پر ملازمین کے چھوٹے چھوٹے کمروں سے ملحق تھا۔

کبھی مردوں کا چیمبر رہنے والایہ خستہ حال حصہ ،سرکاری کوتاہیوں کی داستاں بیان کرتا ہے۔
کبھی مردوں کا چیمبر رہنے والایہ خستہ حال حصہ ،سرکاری کوتاہیوں کی داستاں بیان کرتا ہے۔
کسی زمانے میں پونچھ ہاؤس کا صحن اور میدان 37 کنال پر محیط تھا لیکن آج یہ سکڑ کر محض 23 کنال رہ گیا ہے۔

1983 میں پونچھ ہاؤس کےد لان میں ایک دس منزلہ عمارت بنائی گئی جبکہ حکومت نے اس کی اراضی بھی فروخت کی لیکن 1986 میں وزیر اعظم جنیجو نے پونچھ ہاؤس کی زمین کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔

آزاد جموں اور کشمیر پراپرٹی کے منتظم کے زیر استعمال اس حصہ کی حال ہی میں سفیدی کر کے از سر نو مزین کیا گیا ہے۔یہ حصہ کبھی کشمیر کے مہاراجا کا دربار ہوا کرتا تھا۔
آزاد جموں اور کشمیر پراپرٹی کے منتظم کے زیر استعمال اس حصہ کی حال ہی میں سفیدی کر کے از سر نو مزین کیا گیا ہے۔یہ حصہ کبھی کشمیر کے مہاراجا کا دربار ہوا کرتا تھا۔
اس قدیم عمارت کی رنگین تاریخ اور شاندار ماضی تیزی سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ متروکہ عمارت اب آزاد اور جموں کشمیر کے لیے سرکاری دفاتر استعمال ہوتی ہے۔

عمارت کا مرکزی ہال جہاں کبھی رات گئے موسیقی بجتی تھی، اب وہاں دفتری اوقات میں ٹیلیفون کی گھنٹیاں سنائی دیتی ہیں۔

عمارت میں سفیدی کی وجہ سے دیواروں پر نقش و نگار غائب ہو گئے ہیں جبکہ کچھ حصوں پر خوبصورت ٹائلز ٹوٹنے کے بعد سیمنٹ سے خالی جگہوں کو بھردیا گیا ہے۔

پونچھ ہاؤس میں ان دنوں آزاد جموں کشمیر کے الیکشن کمیشن دفتر کے زیر استعمال اس حصہ میں کبھی جنرل ضیاء کی قائم کردہ فوجی عدالتیں کام کرتی تھیں۔
پونچھ ہاؤس میں ان دنوں آزاد جموں کشمیر کے الیکشن کمیشن دفتر کے زیر استعمال اس حصہ میں کبھی جنرل ضیاء کی قائم کردہ فوجی عدالتیں کام کرتی تھیں۔
ایک سرکاری افسر مسرور احمد نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے عمارت کے بیرونی حصہ کی بحالی کیلئے پانچ لاکھ روپے مختص کیے ہیں اور فروری کے آخر میں اس منصوبہ پر کام شروع ہو جائے گا۔- تصاویر تنویر شہزاد/ وائٹ سٹار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں