’فرار کے لیے گلگت جیل عملے کی برین واشنگ کی گئی’

04 مارچ 2015
2013 میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں 10 غیرملکی سیاح ہلاک ہو گئے تھے — اے ایف پی فائل فوٹو
2013 میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں 10 غیرملکی سیاح ہلاک ہو گئے تھے — اے ایف پی فائل فوٹو

غیرملکی کوہ پیماؤں کے قتل میں ملوث دو قیدیوں کے گلگت بلتستان کی جیل سے فرار کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان قیدیوں نے جیل کے اہلکاروں کی’برین واشنگ‘ کی تھی اور ان ہی کی مدد سے فرار ہوئے۔

23 جون 2013 کو چلاس کے قریب نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود دس غیر ملکی اور ایک پاکستانی سیاح کو گلگت سکاؤٹس کی وردیوں میں ملبوس 12 مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

اس وقعے میں ملوث چار ملزمان نے گذشتہ جمعرات کو ضلعی جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سےایک قیدی ہلاک اور ایک زخمی حالت میں پکڑا گیا تھا جب کہ دو قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد حکام نے جیل کے تین ہیڈ واڈنز، پانچ وارڈنز کے علاوہ ایف سی اور پولیس کے ایک ایک اہلکار اور جیل ڈسپنسری کے انچارج کو تفتیش کیلئے حراست میں لے لیا تھا۔

حراست میں لیے جانے والے جیل کے اہلکار گذشتہ تین ماہ سے انھی بیرکوں میں تعینات تھے جہاں فرار ہونے والے قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قیدیوں کی جانب سے جیل میں تعینات اہلکاروں کی ’برین واشنگ‘ کی تھی اور ان کی ہی مدد سے فرار ہوئے۔

تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اہلکار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2013 میں نانگا پربت بیس پر دس غیر ملکیوں کو قتل کرنے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے دس ملزمان کو ضلعی جیل کی تین مختلف بیرکوں میں رکھا گیا تھا۔

اہلکار کے مطابق اب تک ہونے والی تحقیقات میں یہ سامنے آئی ہے کہ ان ملزمان نے بیرکوں کے باہر تعینات جیل اہلکاروں کے ساتھ نہ صرف اپنے تعلقات بڑھائے بلکہ ان کی ’برین واشنگ‘ بھی کی۔

پولیس اور ایف سی کی جانب سے فرار ہونے والے دونوں قیدیوں حبیب اللہ اور لیاقت علی کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے تاہم ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

یاد رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں