سینیٹ انتخابات، 48 نشستوں کے لیے 132 امیدوار مدمقابل

05 مارچ 2015
توقع ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کو سینیٹ میں یکساں نمائندگی حاصل ہوجائے گی—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
توقع ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کو سینیٹ میں یکساں نمائندگی حاصل ہوجائے گی—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد : قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین آج پارلیمنٹ کے ایوان بالا سے گیارہ مارچ کو ریٹائر ہونے والے اراکین کی جگہ 48 نئے سنیٹرز کو منتخب کریں گے جس کے بعد توقع ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کو سینیٹ میں یکساں نمائندگی حاصل ہوجائے گی۔

توقع ہے کہ دونوں جماعتیں پچیس، پچیس نشستیں جیت لیں گی مگر منظر کے پیچھے کسی اقدام کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کی پوزیشن اس قابل ہوجائے گی کہ وہ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کو حاصل کرلے گی۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا سے دو آزاد امیدواروں وقار احمد خان اور ان کے بھائی امر احمد خان کی کامیابی پی پی پی کو سب سے بڑی پارٹی بنادے گی کیونکہ ان کی پیپلزپارٹی سے وفاداری ایک کھلا راز ہے۔

سینیٹ کی 48 نشستوں کے لیے 132 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا جبکہ سندھ سے چار امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 84 امیدوار صوبوں، فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کی 33 جنرل نشستوں کے لیے مقابلہ کریں گے، بائیس امیدوار صوبوں اور دارالحکومت سے خواتین کے لیے مختص آٹھ نشستوں جبکہ اٹھارہ افراد ٹیکنوکریٹس کی آٹھ نشستوں کے لیے مدمقابل آئیں گے۔

آٹھ امیدوار اقلیتوں کے لیے مختص دو نشستوں کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گے جن میں سے ایک خیبرپختونخوا اور ایک بلوچستان کی ہے۔

وفاقی دارالحکومت سے اقبال ظفر جھگڑا، اشرف گجر، راجا عمران اشرف اور سید ذوالفقار علی شاہ ایک جنرل نشست کے لیے مقابلہ کریں گے جبکہ راحیلہ مگسی اور نرگس ناصر، مسز بسمہ آصف، مسز شمائلہ شہاب، نرگس فیض ملک خواتین کے مخصوص نشست کے لیے آمنے سامنے ہیں۔

پنجاب سے چوہدری تنویر خان، مشاہد اللہ خان، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پرویز رشید، غوث محمد خان نیازی، نہال ہاشمی، ندیم افضل چن، خواجہ محمود احمد، سلیم ضیاءاور سعود مجید سات جنرل نشستوں کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

عائشہ رضا فاروق، نجمہ حمید اور ثروت ملک خواتین کے مخصوص دو نشستوں کے لیے جبکہ راجا ظفر الحق، پروفیسر ساجد میر ارو ملک نوشہر خان لنگڑیال ٹیکنوکریٹس کے لیے مختص دو نشستوں کے لیے انتخابات لڑ رہے ہیں۔

سندھ سے اسلام الدین شیخ، امام الدین شوقین، خوش بخت شجاعت، سلیم مانڈوی والا، عبدالرحمان ملک، عبدالطیف انصاری، گیان چند اور میاں محمد عتیق شیخ سات جنرل نشستوں کے لیے مدمقابل ہیں، جبکہ سسی پلیجو اور نگہت مرزا خواتین کے مخصوص دو نشستوں اور فاروق ایچ نائیک اور محمد علی سیف ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص دو نشستوں کے لیے پہلے ہی بلامقابل منتخب ہوچکے ہیں۔

کے پی سے محمد عدیل، خانزادہ خان، سراج الحق، سید شبلی فراز، عطاالرحمان، امر احمد خان، لیاقت خان ترکئی، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی، محسن عزیز، منظور خان، نور عالم اور وقار احمد خان سات جنرل نشستوں کے لیے انتخابات میں مدمقابل ہیں۔

ثمینہ عابد، ستارہ ایاز، شازیہ تہمس خان، شفاءامجد، شاہین اور فوزیہ فخرالزمان خان خواتین کے لیے دو نشستوں جبکہ افراسیاب خٹک، عبدالمالک، محمد جاوید عباسی، محمد ہمایوں خان، محمد یعقوب شیخ اور نعمان وزیر ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص نشستوں پر کھڑے ہیں۔

اسی طرح جیمز اقبال، جان کینتھ ولیمز اور امر جیت اقلیتوں کی ایک نشست کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

بلوچستان سے احمد خان، عامر افضل خان مندوخیل، حاصل خان بزنجو، جہانزیب جمال دینی، اعظم خان، یعقوب خان ناصر، اسلم بلیدی، محمد عثمان، یاسین بلوچ، مولانا عبدالغفور حیدری، کبیر احمد، محمد یوسف بدینی اور میر نعمت اللہ زہر سات جنرل نشستوں کے لیے کھڑے ہیں۔

کلثوم پروین، ثناءجمالی، نسرین رحمان کھتران، طاہرہ خورشید، گل بشریٰ اور رابعہ یاسمین خواتین کی نشستوں جبکہ آغا شہباز خان درانی، انجنئیر بسنت لال گلشن، عبدالمناف ترین، محمد یاسین بلوچ، مختار احمد چھلگری، ملک سکندر خان اور میر کبیر احمد ٹیکنوں کریٹس کی دو نشستوں کے لیے مدمقابل ہیں۔

اسی طرح انجنئیر بسنت لال گلشن، دنیش کمار، ڈاکٹر اشوک کمار، روشن خورشید اور ہیمن داس اقلیتوں کے لیے مختص ایک نشست کے امیدوار ہیں۔

فاٹا سے چار نشستوں کے لیے 36 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

ای سی پی کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پولنگ کے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔

پولنگ صبح نو بجے سے چار بجے تک ہوگی، صوبائی اسمبلیوں کو ان کے صوبوں کے لیے پولنگ اسٹیشنز جبکہ قومی اسمبلی کو فاٹا اور اسلام آباد کی نشستوں کے لیے پولنگ اسٹیشنز قرار دیا گیا ہے۔

بیلٹ پیپر ملنے کے بعد ووٹر پولنگ بوتھ میں جاکر اپنا ووٹ ایک، دو، تین یا چار امیدواروں کے ناموں پر اپنی ترجیحات کے مطابق انگلی رکھ کر ریکارڈ کرائے گا۔

ریٹرننگ افسران ووٹر کی شناخت کی تصدیق کرے گا اور اس مقصد کے لیے وہ ووٹر کے شناختی کارڈ کو دیکھ سکتا ہے۔

ووٹرز کو بتایا جائے گا کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنے نام کے سامنے ٹک مارک لگا دے اور بیلٹ پیپر کی کاپی پر اپنا نام درج کردے، جبکہ اسے اپنی ترجیحات اردو یا انگلش ہندسوں میں درج کرنے کا مشورہ بھی دیا جائے گا۔

ووٹ اس وقت مسترد ہوجائے گا جب ہندسہ ترجیحات کے کالم میں درج نہ ہوا یا دو امیدواروں کے ناموں کے سامنے ہوا یا اس طرح لکھا گیا کہ اس سے سمجھنا مشکل ہوجائے کہ یہ کس امیدوار کے لیے ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ جنرل نشستوں کے لیے بیلٹ پیپرز سفید، خواتین کی نشستوں کے لیے گلابی، ٹیکنو کریٹس نشستوں کے لیے سبز اور اقلیتی سیٹوں کے لیے زرد ہوں گے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں کلین سوئپ کی توقع ہے کہ جبکہ پاکستان تحریک انصاف پہلی بار سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرکے تاریخ رقم کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں