امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں بیورو چیف ڈیکلن والش کی تفصیلی رپورٹ "Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions" میں بتایا ہے کہ کس طرح اپنے معاملات خفیہ رکھنے والی پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ نے مبینہ طور پر جعلی اسناد، گھوسٹ یونیورسٹیوں اور صارفین سے ہیرا پھیری کرتے ہوئے لاکھوں ڈالرز کمائے۔

مضمون میں کمپنی کی جانب سے میڈیا گروپ بول شروع کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھاتے ہوئے اس کے پاکستانی فوج یا پھر منظم جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق کا الزام لگایا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی سمجھی جانے والی سافٹ ویئر کمپنی ایگزیکٹ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ردعمل میں جعلی اسناد کے کاروبارسے لاکھوں ڈالرز ماہانہ کمانے کے الزام کو ’بے بنیاد ‘ قرار دیا ہے ۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا تھا کہ کراچی میں قائم سافٹ ویئر ایکسپورٹر ایگزیکٹ بظاہر تو سافٹ وئیر ایپلیکیشن فروخت کرتی ہے لیکن اس کا اصل کاروبار ڈاکٹریٹ، نرسنگ، سول انجینئرنگ سمیت درجنوں شعبوں کی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرنا ہے۔

ایگزیکٹ انتظامیہ نے اپنے بیان میں رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، غیرمعیاری ، ہتک آمیز اور جھوٹے الزامات پر مبنی قرار دیا ہے۔

بیان کے مطابق، وزارت داخلہ نے رپورٹ کے خالقDeclan Walshکو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا تھا۔

ایگزیکٹ کمپنی نے نیویارک ٹائمز اور رپورٹ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کا بھی اعلان کیا ہے جب کہ نیویارک ٹائمز کو بھیجے جانے والے ایک قانونی نوٹس کو بھی اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ جنگ اور ایکسپریس میڈیا گروپ ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ بیان کے مطابق، والش نے’ یک طرفہ کہانی‘ گھڑتے ہوئے کمپنی کا نقطہ نظر شامل نہیں کیا۔

ایگزیکٹ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار نے آخری لمحات میں کمپنی کو ایک ای میل کے ذریعے کچھ سوالات پوچھے اور ان کے فوراً جواب مانگے جس پر کمپنی کے وکیل نے انہیں اپنا ردعمل لکھا۔

نیو یارک ٹائمز نے اس رپورٹ کے ساتھ ساتھ ایک الگ رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں ان ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی فہرست دی گئی ہے جو مبینہ طور پر ایگزیکٹ کی جانب سے چلائی جا رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایگزیکٹ نے یونیورسٹیز، اسکولز، سرچنگ پورٹلز، جعلی اسناد کی تصدیق کے ادارے، لینگویج اسکولز اور لااسکولوں سمیت 370 ویب سائٹس قائم کر رکھی ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق، لوگوں کو لبھانے کے لیے ادارے کی ویب سائٹس پر سی این این آئی رپورٹ، پرجوش تعریفی وڈیوز اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری سمیت مختلف حکام کی دستخط شدہ اسناد کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایگزیکٹ سے وابستہ ویب سائٹس بظاہر تو مختلف ہیں لیکن تصدیق کے ایک جیسے ادارے اور گرافک کی بنیاد پر انہیں شناخت کیا جاسکتا ہے جبکہ ان میں تکنیکی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔

کمپنی کی تمام ویب سائٹس کا ٹریفک قبرص اور لیٹویا میں رجسٹرڈ دو کمپیوٹر سرورز کے ذریعے آتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کمپنی کی یونیورسٹیوں کا کہیں وجود نہیں اور یہ صرف کمپیوٹر سرورز پر موجود تصاویر کے ذخیرہ تک محدود ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ کمپنی کی ڈگریاں بھی حقیقی طور پر کہیں سے منظور شدہ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

عادل عمر May 18, 2015 08:43pm
بات یہ کہ نیویارک ٹائم ایک بڑا نام ہے ۔ اس کہانی میں کچھ نہ کچھ تو سچائی ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے شائع کی ہے ۔ بڑے اخبارات اتنی بڑی سٹوری بغیر کسی وجہ کے شائع نہیں کرتے ۔ بول‘‘ کے پچھے کون ہے؟؟ اور اتنی بڑی ’’سرمایہ کاری‘‘ کون کررہا ہے’’ ؟؟ ۔ یہ سوال کئی سالوں سے عوامی حلقہ میں گردش کررہا ہے ۔ لیکن اس کا درست جواب ابھی تک کسی کو معلوم نہیں
خان May 18, 2015 09:34pm
میرے خیال میں 'بول' شروع دن سے ہی مجھے مشکوک لگتا ہے۔ انہوں نے ابھی کوئ چینل شروع نہیں کۓ اور بظاہر آمدنی کا کوئ زریعہ نہیں ہے تو پھر اتنے مہینوں سے اتنے سٹاف کو تنخواہیں کہاں سے دے رہے ہیں؟ اتنا بے حساب پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کسی حکومتی ادارے نے ان سے پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ اب بھانڈا پھوٹا بھی تو ایک گورے صحافی نے پھوڑا۔
خان May 18, 2015 09:40pm
مجھے ڈان کی سٹوری بہت ہومیو پیتھک سی لگی ہے۔ ڈان نے ایک طرح سے 'بول ' کی طرف سے وضاحت کی ہے حالاں کہ نیو یارک ٹائم کی سٹوری مستند ہے اور اس پر اعتبار نہ کرنے کی کوئ وجہ نہیں۔ 'ایگزیکٹ' کی وضاحت میں بھی ان کی زریعہ آمدن کے بارے میں کوئ بات نہیں کی گئ بلکہ صرف نیو یارک ٹائم کے الظامات کے جواب میں نۓ الظامات لگاۓ گۓ ہیں۔
Israr Muhammad Khan Yousafzai May 18, 2015 10:47pm
پاکستان میں سب کچھ ممکن ھے