'کے الیکٹرک 130 ارب کے واجبات ادا کرے'

اپ ڈیٹ 30 جون 2015
۔اے ایف پی فائل فوٹو۔
۔اے ایف پی فائل فوٹو۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک پر اس کے مختلف اداروں کے 130 ارب روپے کے واجبات ہیں۔

حکومت نے یہ جواب سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کی جانب سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے خلاف مقدمے کی ایک سماعت کے دوران جمع کروایا۔

کے الیکٹرک کا موقف ہے کہ کراچی کو پانی فراہم کرنے والے ادارے پر اس کے 28.7 ارب روپے واجب ہیں۔

پیر کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے چاروں صوبائی قانون کے افسروں کو اپنے اپنے موقف پیش کرنے کی ہدایت کی۔

19 فروری کو اعلیٰ عدالت نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو اس وقت نوٹس جاری کیا جب کے الیکٹرک نے سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کے تحت چلنے والے ادارے کے واجبات ادا کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔

تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرگیا جب سندھ ہائی کورٹ نے 14 اپریل 2014 کو اپنے فیصلے میں کہا کہ کے الیکٹرک کے ڈبلیو ایس بی کی بجلی منقطع نہیں کرسکتی جس پر کے الیکٹرک نے اپیل دائر کی۔

اپیل میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو کے ڈبلیو ایس بی کے واجبات ادا کرنے کی ہدایت کرے۔

جواب میں وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ کے الیکٹرک پر اس کے 130 ارب روپے کے واجبات ہیں جس میں این ٹی ڈی سی کے 55.9 ارب، سوئی سدرن گیس کمپنی کے 55.5 ارب، پاکستان اسٹیٹ آئل کے 3.228 ارب، کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے 4.1 ارب، پی ٹی وی کے 86 لاکھ اور 10.6 ارب روپے دیگر مختلف وفاقی حکومت کے اداروں کو ادا کرنے ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ کے الیکٹرک 2005 کے معاہدے کے مقابلے میں 2008 کے معاہدے کے تحت پہلے ہی کافی مراعات لے رہی ہے جس کے باعث وفاقی حکومت 269.5 ارب روپے کا نقصان برداشت کررہی ہے۔

حکومت کے مطابق اس پر کے الیکٹرک کو کوئی واجبات ادا نہیں کرنے بلکہ کے الیکٹرک مرکز کے تمام واجبات فوری طور پر ادا کرے۔

جواب میں وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ کے الیکٹرک کے پاس تقریباً 2710 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس کے باوجود کمپنی این ٹی ڈی سی کی جانب سے 650 میگا واٹ بجلی پر انحصار کرتی ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک کو 365 میگاواٹ آئی پی پیز فراہم کرتے ہیں۔

حکومت کے مطابق کے الیکٹرک نے پاور پراجیکٹ معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی اور بعض اوقات 650 میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل کی جس کے باعث نہ صرف این ٹی ڈی سی کو نقصان ہوا بلکہ لوڈشیڈنگ بھی بڑھی۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد کے ڈبلیو ایس بی کو فنڈز فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کیوں کہ یہ ایک صوبائی ادارہ ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jun 30, 2015 03:35am
woh konsa ehsaan hey jis key badley wafaqi hukumat ney k electric sey wajbaat naheyin liye?