شجاع خانزادہ پرحملہ: 4 ملزمان کی ڈرامائی گرفتاری

22 اگست 2015
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم مدرسہ حقانیہ — فوٹو: آن لائن
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم مدرسہ حقانیہ — فوٹو: آن لائن

اسلام آباد: پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی مشترکہ ٹیم نے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر ان کے آبائی علاقے اٹک میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں ملوث 4 مبینہ ملزمان کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس آپریشن کے حوالے سے ان کو آخری لمحات میں بتایا گیا۔

پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی، راولپنڈی پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی مشترکہ ٹیم نے رات گئے اسلام آباد کے علاقے ایٹتھ ایوینو میں قائم مدرسہ حقانیہ میں کارروائی کرتے ہوئے چار افراد کوحراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا.

جن افراد کو حراست میں لیا گیا، ان میں مدرسے کے ناظم قاری احسان اللہ کے بیٹے امداد اللہ، مدرسے کے استاد ارشد اور دو مہمان، جن میں سے ایک کی شناخت شوکت کے نام سے ہوئی ہے،شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر داخلہ پنجاب خود کش حملے میں ہلاک

حکام کے مطابق یہ آپریشن، اٹک حملے میں ملوث ملزمان کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر کیا گیا تھا۔

سینیئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ ’آپریشن کے حوالے سے مقامی پولیس کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے، یہ بات ابھی غیر واضح ہے، جس کی وجہ فوری آپریشن یا دیگر خدشات بھی ہوسکتے ہیں، تاہم وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔‘

حکام کے مطابق مدرسے سے منسلک مسجد اور گرین بیلٹ میں بھی سرچ آپریشن کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مدرسے کے ناظم قاری احسان اللہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے اہم رہنما ہیں اور ان کا نام 2009ء سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فرقہ وارانہ نفرت اور نفرت انگیز تقاریر پھیلانے پر فورتھ شیڈول فہرست میں بھی شامل ہے۔

آپریشن کے حوالے سے قاری احسان کا کہنا تھا کہ سرچ آپریشن کسی بھی وارنٹ اور مجسٹریٹ کی موجودگی کے بغیر کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ آپریشن کی وجہ اور حراست میں لیے گئے افراد کی منتقلی کے مقام کے بارے میں اطلاعات نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شجاع خانزادہ قتل: 'نامعلوم افراد' پر مقدمہ درج

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سی آئی اے اور سی آئی ڈی کے دفاتر اور مارگلہ پولیس اسٹیشن سے بھی رابطہ کیا ہے تاہم حراست میں لیے جانے والے افراد وہاں موجود نہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ پولیس حراست میں لیے جانے والے افراد کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کررہی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Ayub khan Aug 22, 2015 11:42pm
tum yeh phurtiyan us key qatil sey pehley kar leytey
Israr Muhammad khan Yousafzai Aug 23, 2015 02:07am
اچھی خبر ھے۔ جہاں بھی مشتبہ ادمی نظر ائے اٹھا لیا جائے۔