انور ظہیر جمالی 24 ویں چیف جسٹس بن گئے

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2015
چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی، جہاں صدر ممنون حسین نے اُن سے حلف لیا—۔فوٹو/ڈان نیوز اسکرین گریب
چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی، جہاں صدر ممنون حسین نے اُن سے حلف لیا—۔فوٹو/ڈان نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: جسٹس انور ظہیر جمالی نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے.

ایوان صدر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی، جہاں صدر ممنون حسین نے جسٹس انور ظہیر جمالی سے اردو میں حلف لیا.

جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملک کے 24 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ایک سال اور 4 ماہ تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے.

جسٹس انور ظہیر جمالی—۔فوٹو/ بشکریہ پریس اینڈ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ
جسٹس انور ظہیر جمالی—۔فوٹو/ بشکریہ پریس اینڈ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ

اس سے قبل سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ 24 دن تک چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر تعینات رہے۔

حلف برداری کی تقریب میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور تصدق حسین جیلانی بھی شریک ہوئے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کا تعلق مشہور صوفی بزرگ حضرت قطب جمال الدین احمد حسنوئی کے گھرانے سے ہے جو پنجاب کے مشہور صوفی بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ بھی تھے.

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے والدین قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ہندوستان کے شہر جے پور سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، وہ 31 دسمبر 1951 کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تجارت اور قانون میں بالتریب 1971 اور 1973 میں سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کیں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بھی رہ چکے ہیں۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی زندگی پر ایک نظر

اس سے قبل سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے گذشتہ ماہ 17 اگست کو اس عہدے کا حلف اٹھایا تھا، تاہم وہ صرف 24 دن تک ہی اس عہدے پر رہ سکے کیونکہ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 9 ستمبر 2015 تھی.

لیکن جاتے جاتے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کئی اہم فیصلے کرگئے، انھوں نے 8 ستمبر کو ایک ہی دن میں 8 مقدمات کے فیصلے دے کر ریکارڈ قائم کیا، جس میں سب سے اہم فیصلہ قومی زبان اردو کے نفاذ کا ہے۔

جواد ایس خواجہ نے حکومت کو 3 ماہ میں اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا، انہوں نے عرب شہزادوں کے ہاتھوں نایاب پرندے تلور کے شکار کو غیر قانونی قرار دیا جبکہ پولیس اصلاحات کیس کا فیصلہ بھی دیا، اس کے ساتھ ساتھ جسٹس جواد نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرانے کا بھی حکم دیا.

جسٹس جواد ایس خواجہ اُن 6 ججز میں شامل ہیں جنہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی 21 ویں آئینی ترمیم بحال رکھنے کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا۔

وہ ملکی تاریخ کے واحد جج ہیں جنہوں نے کبھی سرکاری پلاٹ حاصل نہیں کیا جبکہ بطور چیف جسٹس انہوں نے بلٹ پروف گاڑی اور بھاری بھرکم پروٹوکول لینے سے بھی انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں