اسلام آباد: ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف اقدامات نہ اٹھائے جانے کے الزامات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک فوج نے اعلان کیا ہے کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے ساتھ ساتھ اس لعنت (انتہا پسندی) کے خاتمے کے لیے بھی پُر عزم ہے۔

پاک فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے اجلاس کے دوران اس عزم کا اظہار کیا جو پاک فوج کی تینوں سروسز (فوج، فضائیہ، نیوی) کے تعاون کا ایک مرکزی فورم ہے۔

اجلاس کی صدارت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود کررہے تھے جبکہ اجلاس کے دیگر شرکاء میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ، پی اے ایف کے چیف ایئرچیف مارشل سہیل اعوان اور سروسز کے دیگر سینیئر افسران شامل تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’تمام فوجی سربراہان نے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن اور حکومت کو انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مدد فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا‘۔

تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے ان کے پاس انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کیا منصوبہ موجود ہے۔

اس کے ساتھ ہی بیان میں یہ بھی اشارہ کیا گیا کہ دیگر اسٹیک ہولڈرز، جنھیں انتہا پسندی سے نمٹنے کا کام دیا گیا تھا، وہ نتائج نہیں دے سکے ہیں۔

حکومت پر اس حوالے سے تنقید کرنے کے بجائے فوج نے اعلان کیا ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وہ حکومت کو مدد فراہم کرے گی۔

ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ فوج کے لیے انسداد انتہا پسندی کا کام دہشت گردوں سے جنگ کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انسداد انتہا پسندی فوج کا کام نہیں ہے‘۔

اسلام آباد میں سیکیورٹی مسائل کے حوالے سے قائم خود مختار تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز (پی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر عامر رانا کاکہنا ہے کہ توجہ کی کمی کے باعث انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے باضابطہ فریم ورک کی ضرورت ہے.

گذشتہ سال نیشنل ایکشن پلان کے مسودے کی تیاری میں مدد فراہم کرنے والے ماہر گروپ کے رکن عامر رانا کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کا خاتمہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس حوالے سے فوج اپنے کردار کو کہاں تک ادا کرسکتی ہے، اسے سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔

خیال رہے کہ نومبر میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے دوران بھی اُن مسائل کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا جو انسداد دہشت گردی آپریشن کی کوششوں کو زائل کرسکتے ہیں.

جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے اجلاس میں خطے کی جغرافیائی حکمت عملی سے متعلق صورت حال پر بھی بات کی گئی۔

پاکستان میں داعش کی موجودگی کے خطر ے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’اجلاس میں مشرق وسطیٰ سے نئے دہشت گردی کے عوامل (داعش) کی منتقلی کے خطرے کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی‘۔

سرکاری طور پر اس حوالے سے پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو داعش سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ کراچی کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کچھ دن قبل یہ کہا تھا کہ ان کے اہلکار خواتین کے ایک ایسے گروپ کا پیچھا کررہے ہیں جو داعش کے لیے فنڈز جمع کرتی ہیں اور ان کے پیغام کو بڑھانے کا کام کررہی ہیں۔

یہ خبر 23 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں