کراچی: لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور کراچی میں خوف کی علامت عزیر بلوچ نے مئی 2012 میں میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ سندھ حکومت کو کبھی بھی گرفتاری نہیں دیں گے کیونکہ وہ ان کو پھنسا کر مار دینا چاہتی ہے اس لیے وہ پنجاب میں گرفتاری دینا چاہیں گے تاکہ وہاں کی عدالتوں میں مقدمہ چلے۔

ستمبر 2013 میں کراچی میں پولیس و رینجرز کا مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا، اور آپریشن کے اعلان کے فوری بعد اطلاعات سامنے آئیں کہ عزیر بلوچ بیرون ملک فرار ہوگیا ہے۔

بعد ازاں دسمبر 2014 کے آخری ہفتے میں یہ خبر سامنے آئی کہ عزیر بلوچ کو متحدہ عرب امارات میں مسقط سے دبئی جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور اس گرفتاری کے 5 ماہ بعد اپریل 2015 میں یہ خبر بھی سامنے آئی کہ عزیر بلوچ کو دبئی میں رہائی مل گئی ہے۔

9 ماہ قبل عزیر بلوچ کی دبئی میں رہائی کی خبروں کے بعد سے وہ 'لاپتہ' تھے، کبھی کہا جاتا تھا کہ انہوں نے افغانستان سے خاندان کے افراد سے رابطہ کیا ہے جبکہ جون 2015 کے وسط میں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ عزیر بلوچ کو پاکستانی سیکیورٹی ادارے حراست میں لے کر پشاور منتقل کر چکے ہیں جبکہ اس نے دوران تفتیش بینظیر بھٹو کے سابق سیکیورٹی افسر خالد شہنشاہ کے حوالے سے کوئی انکشاف بھی کیا ہے،لیکن اس حوالے سے کوئی بھی تفصیل کبھی سامنے نہیں آئی۔

خالد شہنشاہ 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کے قتل کے روز بھی ان کی حفاظت پر مامور تھے جبکہ ان کی ہلاکت کے 7 ماہ بعد جولائی 2008 میں خالد شہنشاہ پر کراچی میں ان کے گھر کے قریب فائرنگ کی گئی، جنھیں زخمی حالت میں ضیاء الدین ہسپتال منتقل کیا گیا،جہاں بعد ازاں خالد شہنشاہ کا انتقال ہو گیا۔

یہ وہی ہسپتال ہے جس کے مالک پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم ہیں ۔ جنھیں رینجر نے اگست 2015 میں گرفتار کیا تھا۔ ڈاکٹر پر ہسپتال میں جرائم پیشہ افراد کا علاج کرنے سمیت دیگر کئی الزامات عائد کیے گئے، تاحال وہ سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں اور ان سے ابھی تک تفتیش جاری ہے۔

پیپلز پارٹی کے لیاری سے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول، خالد شہنشاہ کے قتل کا الزام عذیر بلوچ پر عائد کرتے ہیں جب کہ جس وقت خالد شہنشاہ کا قتل ہوا اس وقت سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا تھے۔

یہ پڑھیں: عذیر بلوچ کون ہے؟ ایک تعارف

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پر عزیر بلوچ اور ان کی بنائے ہوئے گروپ کالعدم پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے اور وہ اس تعلق کا اعتراف متعدد مرتبہ کر چکے ہیں۔

اب عذیر بلوچ کی کراچی میں داخلے کی کوشش کے دوران گرفتاری کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔

رینجرز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عزیر بلوچ کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کراچی میں داخل ہو رہا تھا۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عذیر بلوچ پاکستان کب اور کس طرح پاکستان آیا؟ اور اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان آیا تھا تو کس ملک سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اور اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ اور اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوا تھا تو ملک کے کسی اور حصے کی کوئی بھی سیکیورٹی فورس یا خفیہ ایجنسی اس کو گرفتار کیوں نہ کر سکی؟

یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ جس وقت عزیر بلوچ کو حراست میں لیا گیا اُس وقت وہ کس گاڑی میں سوار تھا؟ عزیر کے پاس سے اسلحہ بھی برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اسلحہ کونسا تھا؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر عزیر بلوچ کے پاس اسلحہ موجود تھا تو اس نے وہ استعمال کیوں نہیں کیا؟ اور اتنی آسانی سے کیسے گرفتاری دے دی۔

ماضی میں کراچی الیکٹرک کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے چئیرمین شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا نے بھی کئی انکشافات کیے تھے، صولت کو تو پھانسی ہو گئی، لیکن جن افراد کے نام لیے گئے تھے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

اب دیکھنا ہے کہ عزیر بلوچ دوران تفتیش کن کن افراد پر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتا ہے اور ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو پائے گی؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جنہیں سراہا جانا چاہیے لیکن ہمیں یقینی طور پر مقدمات اور گرفتاریوں کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں